سقوطِ کشمیر کے تین برس

پانچ اگست 2019کو بھارت نے ایک ہارتے ہوئے کھلاڑی کی طرح شطرنج کی بساط کو ہی لپیٹنے کا فیصلہ کیا ۔یک طرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کی حیثیت اور نوعیت ہی بدل ڈالی گئی ۔یہ فیصلہ کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی گہری منصوبہ بندی اور طویل المیعاد مقاصد تھے۔پانچ اگست کے فیصلے سے پہلے مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک موہوم امیدزندہ تھی ۔کشمیر کو متنازعہ بنائے رکھنے والی کچھ علامتیں کمزور ہوکر بھی اپنا وجود رکھتی تھیں ۔جن میں کشمیر کا الگ پرچم ،اسمبلی اور سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون تھا ۔یہ تمام بیرئیر کشمیر کی ”انڈینائزیشن” یا ”ہندووائریشن ”کی راہ میں بڑی رکاوٹیں تھیں ۔یہ اس دور کی یاد گارتھیں جب کشمیر مہاراجہ ہری سنگھ کی قیادت میں ایک نیم خود مختار ریاست کے طورپر دنیا کے نقشے پر موجود تھا ۔یہ کشمیریت اور کشمیری شناخت کو تحفظ دینے والی علامتیں تھیں ۔جنہیں بعد میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370کے تحت تحفظ دیا گیا ۔اس آرٹیکل کے تحت بھارتی حکومت کشمیر میں آبادی اور جغرافئے کو بدلنے والے اقدامات کی منظوری کے لئے سری نگر اسمبلی کی منظوری کا پابند تھا ۔ان آئینی بندشوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں نے اپنی تاریخ ثقافت او ر اور تہذیب کو انڈینائزیشن سے بچانے کے لئے خود کو دہلی کے ہنگاموں اور سیاسی وثقافتی اُتار چڑھائو سے دور رکھ کر خود اپنی دنیا لکھن پور کی حدود سے اندر ہی بسائے رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی ۔انہوں نے بھارت کے دکھوں میں رونا اور خوشیوں میں ہنسنا چھوڑ کر خود اپنے دکھوں اور خوشیوں پر توجہ مرکوز رکھی ۔آج بھی کشمیر کا سب سے دلچسپ موضوع راجیو گاندھی ۔ممتا بینر جی اور نریندرمودی کی لڑائیاں نہیں بلکہ اسلام آباد میں جاری سیاسی دنگل ہیں۔ کشمیریوں کے اس مزاج کوبدلنے میں ناکامی کے بعد بھارت نے کشمیر کی الگ شناخت ظاہرکرنے والی ہر علامت کو مٹاڈالنے کا فیصلہ کیا ۔تین سال ہوگئے بھارت کشمیر کی انڈینائزیشن کی منزل کی طرف سرپٹ بھاگ رہا ہے ۔کشمیر پر لاگو قوانین یکسر بدل دئیے گئے ہیںکشمیر کی مسلم شناخت اُبھارنے والی علامتوں کو چھپایا اور اس کی ہندو شناخت کو نمایاں کرنے والی علامتوں کو اُبھارا جا رہا ہے۔ان تین برس میں بھارت کی پہلی ترجیح کشمیر کی زمین پر زیادہ اختیار حاصل کرنا اور غیر کشمیریوں بلکہ ہندووں کو شہریت دینا تھا ۔غیر کشمیریوں کو لاکھوں کی تعداد میں ڈومیسائل جاری کر دئیے گئے ۔کشمیر کے پرانے سیکڑوں قوانین سے کشمیریت کی روح نکال کر انہیں انڈینائز کر دیا گیا اب وہ قوانین کشمیریوں کے حقوق کو تحفظ دینے کی بجائے بھارت کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ۔بی جے پی زدہ سیاست دانوں کی ایک نئی پنیری اُگائی جارہی ہے ۔زمینوں پر قبضہ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا خودکار نظام ہے ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نوے کی دہائی میں مسلح تحریک سے وابستہ ہوکر آزادکشمیر منتقل ہونے یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر نقل مکانی کرنے والے ان تمام افراد کی فروخت شدہ جائیدادوں کو سرکاری کنٹرول میں لینے کا منصوبہ بنا چکی ہے ۔نوے کی دہائی میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاقوں سے ہزاروں افراد آزادکشمیر منتقل ہوئے اور ان میں اکثر یہیں آباد ہو کر رہ گئے ۔جس کے بعد ان لوگوں نے مقبوضہ علاقے میں اپنی جائیدادوں کو فروخت کرکے رقم آزادکشمیر اور پاکستان منتقل کرکے نئے آشیاں آباد کرنے کا راستہ اختیار کیا ۔اب بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے الزام عائد کیا ہے کہ ایسی بہت سی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقم مقبوضہ علاقے میں ہی شدت پسندانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوئی ۔بھارتی حکومت نے ایسی فروخت شدہ جائیدادوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کے ساتھ ہی اس طرح کی خرید وفروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس حوالے سے ریونیو کے اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے اس حوالے سے کئی جائیدادوں کی تفصیل بھی سامنے لائی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ پہلے مرحلے پر جائیدادوں کی فروخت کے بعد رقم مسلح سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کے نام پر شروع ہونے والی کاروائی کے بعد اس کا دائرہ نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کی فروخت کی جانے والی جائیدادوں تک بڑھا جائے گا کیونکہ اصل مقصد کشمیر کی زیادہ سے زیادہ اراضی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے ۔ چند ماہ قبل بھارت نے کشمیر میں ایسی جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اعلان کیا تھا جو ان کے بقول عسکریت پسندوں کے ہائیڈ آوٹس کے طور پر استعمال ہوتی تھیں ۔نوے کی دہائی کے اوائل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے اسرائیل کے دورے کرکے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا گہرا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔اسی دور میں بھارت کے ریاستی سطح پر اسرائیل کے ساتھ درپردہ تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی چلی گئی ۔جس کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن پر حفاظت اور چوکسی کا وہی نظام اپنانا شروع کیا جو اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں اور دوسرے سرحدی علاقوں میں زیر استعمال تھا ۔کنٹرول لائن پر باڑھ کا تصور بھی فلسطین کی سرزمین پر چنی جانے والی اونچی دیواروں سے لیا گیا تھا۔ تمام رکاوٹوں کے ختم ہونے کے بعد بھارت نے کشمیریوں کی زمینوں کو ہتھیانے کا ایک عمل بہت سرعت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''