ٹارگٹ کلنگ ‘ ناکامی کا اعتراف کافی نہیں

شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں قیام امن کے باوجود ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی نہ آنا یقینا تشویشناک ا مر ہے مشکل امر یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی روک تھام میں کامیابی نہیں مل رہی ہے جس کے باعث بعض عناصر کی جانب سے صورتحال کی ذمہ داری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پرعائد کرکے انگشت نمائی کی جارہی ہے ۔اس ضمن میں قبائلی عوام مسلسل بے چینی اور بدامنی کا شکار ہو رہے ہیں جس کا بعض عناصر کی جانب سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں۔طول پکڑتا اور شدت اختیار کر جانے والی یہ صورتحال اب غیر معمولی اقدامات کی متقاضی ہے اس حوالے سے جتنا جلد ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ عوام کو تحفظ دینے کی ذمہ داری نبھائی جائے تو بہتر ہو گا۔ دریں اثناء شمالی وزیرستان کے داوڑ اور وزیر اتمانزئی جرگے کے مشران اور عمائدین نے مقامی انتظامیہ اور اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ علاقے میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے خلاف گزشتہ سترہ دن سے جاری دھرنے کے دوران مذاکرات کی ناکامی کے بعد متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ دھرنے کے پلان سی پر عمل کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کے چاروں طرف آٹھ مقامات پر رابطہ اور مین روڈ کو بند کر دیا جائے گا۔دریں اثناء انتظامیہ نے اپنی ناکامی کااعتراف کیا ہے ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان نے کہا ہے کہ سال 2022ء میں شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کے 63واقعات ہوئے ہیں جبکہ 105 ٹارگٹ کلرز ‘ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاک فوج نے مختلف آپریشنز کے دوان قتل کر دیا اور 204 کو گرفتار بھی کیا انہوں نے یہ بات میرانشاہ میں کمانڈنٹ ٹوچی سکائوٹس اور ڈی پی او کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہی انہوں نے تسلیم کیا کہ علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس سے یہاں کے عوام کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہے تاہم حکومت نے قیام امن کے لئے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے بتایا کہ ان کاوشوں اور آپریشنز کے دوران 42 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔یہ درست ہے کہ اپنی ناکامی کا کھلے بندوں اعتراف انتظامی اور حکومتی طور پر کوئی آسان کام نہیں بلکہ باعث ندامت امر ہے لیکن جو حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا گیا ہے اس کا اعتراف بھی نہ کرنا انصاف نہ ہوگا۔اس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ حکام سنجیدگی اور خود احتسابی کے ساتھ صورتحال پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں شمالی وزیرستان میں حکومتی مشینری باقاعدہ طور پر متحرک ہے جس کی تفصیلات پریس کانفرس میں بیان کی گئیں دوسری جانب جرگہ کے عمائدین کی بے چینی بھی بلاوجہ نہیں تاہم اس ضمن میں دھرنا جاری رکھنا مسئلے کا حل نہیں اگر دھرنا دینے سے صورتحال میں بہتری آتی تو سترہ دن کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ہمارے تئیں اس کا موزوں حل اس طرح سے ممکن ہوگا کہ انتظامیہ حکومتی مشینری اور عمائدین مل کر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی سعی کریں اور باہمی روابط بہتر اور مربوط بنا کر قانون شکنوں سے نمٹا جائے کالعدم ٹی ٹی پی سے فائر بندی پر اتفاق کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آئے گی۔
پولیس’ کالی بھیڑوں کا خاتمہ ضروری ہے
رنگ روڈ شیخ ملتون ٹائون تھانے کی حدود سے تاجر کو مبینہ طور پر اغواء حبس بے جا میں رکھنے اور دو کروڑ روپے رشوت کے مطالبے کے الزام پر ڈی پی او عرفان اللہ خان نے سب انسپکٹر سمیت چھ پولیس اہلکار وں کو معطل کرکے لائن حاضر کر دیا۔ایک ایسے موقع پر جب سپاہی سے آئی جی تک سب قوم پرقربان کے نعرے کے ساتھ خیبر پختونخوا پولیس یوم شہداء منا رہی ہے مردان میں خود پولیس کی صفوں میں اس طرح کے عناصر کا سامنے آنا پولیس کے ماتھے پر داغ ہے پولیس اگر خود ہی ان عناصر کا کھوج لگا کر ا ن کے خلاف کارروائی کی جاتی تو وہ قابل قدر ہوتا لیکن یہاں مظلوم پارٹی نے خود ہی سارا کیس حل کرکے پولیس حکام کے پاس سخت کاررائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا جو لمحہ فکریہ ہے ۔ اس طرح کے نجانے کتنے واقعات میں خود پولیس کی صفوں میں شامل افراد ملوث ہوں گے ا ن کا کھوج لگانا مظلوم فریق کی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی ہر کوئی اس طرح کر سکتا ہے اس طرح کے عناصر پر نظر رکھنا خود پولیس کے محکمے اور حکام کی ذمہ داری ہے حکام اگر پولیس کی وردی میں اغواء کاروں اور ان کے ساتھیوں کا کھوج نہیں لگا سکتے تو جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیسے اور کیونکر کامیابی حاصل کر پائیں گے ۔ بہرحال وفتاً فوقتاً ملی بھگت کے الزام میں محکمہ کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے جس میں اب مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے پولیس کو اپنی صفوں کو کالی بھیڑوں سے پاک کئے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی۔
صحت اور تعلیم کے اداروں کی مجبوراً نجکاری
محکمہ صحت صحت نے خیبر پختونخوا کے تین قبائلی اضلاع سمیت 24 ضلعوں کے 58 سرکاری ہسپتالوں کو خراب کارکردگی کی وجہ سے نجی شعبہ کودینے کی تجویز پر کام شروع کر دیا ہے خیبر پختونخوا ہیلتھ فائونڈیشن کے ذریعے آئندہ مہینوں کے دوران یہ ہسپتال نجی کمپنیوں اور این جی اوز کو دے دیئے جائیں گے جس میں پشاور کے پانچ ہسپتال بھی نجکاری کے لئے شامل کئے گئے ہیں ۔قبل ازیں سرکاری سکولوں کو نجی شعبے کے اشتراک سے چلانے کی منصوبہ بندی سامنے آئی تھی سرکاری محکموں کی خراب اور بدترین کارکردگی سے عوام تو محروم رہتے ہی ہیں اب خود ایسا کرنے والوں کی ملازمتوں اور مراعات کو بھی خطرات سامنے آرہے ہیں معلوم نہیں کہ سرکاری ملازمین کو کب اس کا احساس ہو گا ماضی میں سرکاری اداروں کی ناکامی اور تباہی کے باعث خاتمے کی بھی مثالیں موجود ہیں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں جی ٹی ایس جیسی کامیاب سروس بھی اسی طرح کے عاقبت نا اندیش عناصر کے ہاتھوں تباہی سامنے آئی جس کے بعد حکومت کو اس کے اثاثے فروخت کرنے پڑے اب تعلیم اور صحت کے شعبے میں حکومت اس طرح کے اقدامات پر مجبور ہوئی ہے ۔سرکاری ملازمین اگر اپنی کارکردگی ایمانداری کے ساتھ نبھائیں تو حکومت کو اس طرح کے فیصلے کی نوبت ہی نہ آئے ۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟