امریکی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کا تحفہ

امریکی سفیر کی جانب سے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو36ایمبولینسز کا تحفہ دیا گیا ہے سول سیکرٹریٹ پشاور میں محکمہ صحت خیبرپختونخوا کو گاڑیاں حوالے کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ سفیر ڈونلڈ بلوم کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس کے خاتمے کے لیے بھی امریکہ نے پاکستان کی امداد کی۔امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات ہیں، امریکہ پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں امداد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔اس سے قبل امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے مختلف شعبوں میں صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون اور اشتراک کار پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ محمود خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اور صوبے کے عوام مختلف شعبوں میں امریکی تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اگرچہ اس طرح کی ملاقات اور اشتراک سفارتی تعلقات کا حصہ اور معمول کے مطابق ہوتے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کی قیادت امریکی سازش کے حوالے سے عوام میں جو شکوک و شبہات کا باعث موقف کا اظہار کرتی آئی ہے اس تناظر میں ہی میڈیا نے بھی اس خبر کو اہمیت دی اور اسے دو حکومتوں کے درمیان معاملت کی بجائے امریکی سفیر اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے درمیان تحفہ دینے اور ملاقات کے زاویئے سے دیکھا ایسا ہونا اس لئے بھی فطری امر تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کے نزدیک محروم اقتدارہونے کے بعد امریکہ سے کسی قسم کا رابطہ رکھنا اپنے موقف سے از خود انحراف ہی تصور ہو گا حالانکہ یہ ہر گز کوئی غیر معمولی عمل نہیں معلوم نہیں کہ ہمارے ملک میں ایک جانب حصول تعاون اور دوسری جانب تنقید سے بھی بڑھ کر کسی اور قسم کی عینک سے دیکھنے کا رواج کیوں ہے اور اس میں تبدیلی کب آئے گی۔اس طرح کا موقف اختیار کرنے کی مخالفت وحمایت مقصود نہیں اس سے پیدا شدہ مشکلات بھی اپنی جگہ لیکن قول و فعل کا تضاد ہی اگر رکھنا ہو تو پھر زیادہ بہتر امر یہ ہو گا کہ سفارتی اور بین الاقوامی معاملات کو سازش کی نظر سے دیکھنے کا رویہ ترک کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ جہاں تک امداد و گرانٹ یا تعاون کا معاملہ ہے دونوں ممالک کے درمیان ماضی سے حال تک اور آئندہ بھی جاری رہنے کا قوی امکان ہے سوائے اس کے کہ حالات و واقعات کے باعث اس میں اتار چڑھائو آئے وگر نہ سفارتی تعلقات و تعاون کے مد میں کوئی بھی عمل غیر معمولی نہیں بلکہ معمولات کا حصہ ہے وزارت خارجہ اور ملکی ادارے ملکی مفادات کے حوالے سے ذمہ دار اور پوری طرح حساس ہیں لہٰذا اپنے قول و فعل سے ان کو خجالت کا شکار نہ ہونے دیا جائے اوران کو ان کی ذمہ داریاں اعتماد اور سفارتی ماحول میں نبھانے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور ملک و قوم کا مفاد متاثر نہ ہونے دیا جائے تبھی حب الوطنی کے تقاضوں پورے ہوں گے ۔
پنجاب کابینہ میں ق لیگ کی عدم نمائندگی؟
پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کے حلف اٹھانے کے بعد پنجاب کی 22 رکنی کابینہ کے ناموں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں مسلم لیگ ق کا کوئی وزیر شامل نہیں ہے۔گزشتہ روز وزرا کو ان کے محکمے بھی الاٹ کر دئیے گئے۔دوسری جانب مسلم ق کے رہنما اور وزیراعلی پنجاب کے صاحبزادے مونس الہی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق کے وزرا دوسرے مرحلے میں حلف اٹھائیں گے۔ چیئرمین تحریک انصاف سے اسلام آباد میں ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان سے کہا ہے کہ ہمیں پنجاب کی وزارت اعلی مل چکی ہے، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔اپنی ٹویٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ عمران خان نے کابینہ کی تشکیل کے دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ ق کے وزرا کو شامل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اگرچہ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے اس حوالے سے کسی ایسے ردعمل کا اظہار سامنے نہیں آیا ہے جس سے کسی اختلاف اور ناپسندیدگی کا شائبہ ہو لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ(ق) کو بطور سیاسی جماعت اس ضمن میں اپنی صفوں میں سوالات کا سامنا ضرور ہو گا ایک ایسے وقت جبکہ مسلم لیگ(ق) نے اپنی قیادت سے گویا بغاوت کرکے پنجاب کا معرکہ سر کیا ہو اگر اس کے بعد سوائے وزارت اعلیٰ کی نشست کے اس کے حصے میں قابل ذکر وزارتیں نہ آئیں اور یہاں تک کہ پہلے مرحلے میں ان کا کوئی بھی وزیر شامل نہ ہو ایسی کابینہ کی سربراہی سے یقینا وزیر اعلیٰ کو بھی خوشی نہ ہو گی پنجاب میں حکومت سازی کی صورتحال بظاہر طے پا گئی ہے لیکن ابھی راکھ میں دبی چنگاری بجھی نہیں اس لئے پنجاب میں صوبائی حکومت اور ان کی اتحادی جماعت کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کوئی بھی معمولی غلطی بھاری پڑ سکتی ہے اتحادی حکومت میں سب کو ساتھ لے کر چلنا مجبوری سمجھی جاتی ہے اور اگر وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت ہی مطمئن نہ ہو تو یہ اور مشکل ہوگی۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند