عرش والے مری توقیر سلامت رکھنا

یہود و نصاریٰ کا سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی مسلمان ملک کا جوہری قوت ہوتا ہے اور جب سے اہل ہنود نے بھی جوہری قوت حاصل کی اس کے بعد ان تینوں نے ایکا کر لیا ہے ‘ اعلانیہ طور پر صرف پاکستان ہی ایسا مسلمان ملک ہے جس نے نہ صرف بھارتی جوہری دھماکوں کا جواب دیتے ہوئے چاغی کے پہاڑی سلسلوں میں زیر زمین ایٹمی دھماکے کئے ‘ حالانکہ اس وقت امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں نواز شریف کو اس اقدام سے منع کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ‘ پاکستان کے خلاف قرضے ختم کرنے کے لئے اربوں ڈالر کی امداد دینے کی بھی پیشکش کی لیکن اس وقت بھارتی ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے بھارت کے اندر جس طرح پاکستان کو دھمکی آمیز صورتحال کا سامنا تھا ‘ بھارتی حکمران جماعت ‘ حزب اختلاف کے رہنماء اور عوام جس طرح بغلیں بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے اور بعض حلقے تو کشمیر پر فوری طور پر حملہ کرنے کی اپنے حکمرانوں کو ترغیب دے رہے تھے ‘ ایسی صورتحال میں پاکستان پر بہت دبائو آرہا تھا اور عوام کا مورال ڈائون ہو رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے جب بھٹو دور میں پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کا فیصلہ کرکے اس حوالے سے پیش رفت شروع کی ‘ کیونکہ بھٹو مرحوم بھی اس فیصلے تک پہنچنے پر اس لئے مجبور ہوا تھا کہ 1974ء میں بھارت نے ایک ایٹمی دھماکہ کرتے ہوئے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد بھٹو مرحوم نے خطے میں طاقت کا توازن برقرار کے لئے ضروری سمجھا کہ اگر بھارت ایٹمی قوت بنتا ہے تو پاکستان کے عوام گھاس کھائیں گے مگر بھارت کی بالادستی کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے اور اس کے بعد پاکستان بھی اس راہ پر بہ امر مجبوری گامزن ہو گیا جس پر اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو مرحوم کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی اور بعد میں ہنری کسنجر نے اپنے الفاظ کو واقعی عملی جامہ پہناتے ہوئے نہ صرف بھٹو حکومت کا تختہ الٹوا دیا بلکہ اسے تختہ دار پر پہنچا کر ”نشان عبرت”بھی بنا دیا تھا لیکن اتنا ہوا کہ جو راستہ مرحوم بھٹو نے اختیار کیا تھا اس راستے کو بعد میں آنے والی فوجی حکمران ضیاء الحق نے کھوٹا نہیں ہونے دیا اور اس دور کے وزیر خزانہ(بعد میں صدر مملکت) غلام اسحاق خان نے مکمل مالی سپورٹ سے منزل مقصود تک پہنچنے میں ہر ممکن تعاون کیا حالانکہ ضیاء الحق کو بھی ایٹمی قوت کے حصول سے روکا جاتا رہا لیکن انہوں نے خفیہ طور پر غلام اسحاق کی مدد سے ایٹمی پروگرام جاری رکھا ‘ اور جب بھی امریکی حکومت نے اس حوالے سے شکایت کی تو ضیاء الحق انکار کرتا رہا کہ پاکستان نے پروگرام جاری رکھا ہوا ہے شنید ہے کہ ایک بار ضیاء الحق کے دورہ امریکہ کے دوران مبینہ طور پر پینٹاگون میں انہیں سٹیلائٹ سے بنائی گئی کہوٹہ کی فلم دکھائی گئی اس اطلاع میں کتنی صداقت ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم ضیاء الحق کے طیارے کو حادثہ بھی ایٹمی پروگرام کے ساتھ جوڑنے کی سوچ بعض حلقوں میں موجود ہے اور آخری نشان عبرت میاں نواز شریف قرار دیئے جاتے ہیں جن کے امریکی صدر بل کلنٹن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے اور اربوں ڈالر کی ترغیب اور پاکستان کے قرضے معاف کرنے کی پیشکش کو ٹھکرانے کے نتیجے میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں سعودی عرب جلاوطن کرنے کی کارروائی عمل میں لائی گئی اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹوکو بھی جلاوطنی اختیار کرنے پر اسی ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے کی پاداش میں مجبور کیا گیا ، اس سے پہلے مصر کی ابھرتی ہوئی طاقت کو جس طرح ختم کرکے اسے اسرائیل کے قدموں میں ڈھیر کرنے کی کوشش کی گئی اس کے بعد پاکستان کو بھی چاروں طرف سے گھیرنے کے لئے ایک بار پھر سازشوں کے جال بنے جانے لگے اس دوران میں ایک بار پھر میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے چین کے تعاون سے سی پیک کا منصوبہ آگے بڑھایا جو اگر بروقت پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو پاکستان عالمی سطح پر اقتصادی طور پر ایک بڑی اور اہم قوت کے طور پر سامنے آجاتا ‘ یہ صورتحال پاکستان کے ایٹمی قوت بننے سے بھی زیادہ ”خطرناک” ہوئی جو عالمی قوتوں سے ہر گز برداشت نہیں ہو رہی تھی اس لئے اس منصوبے کے خلاف سازشوں کے جال بن کر نہ صرف پاکستان کی راہ روکنے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں روڑے اٹکانے کے لئے پاکستان کے اندر ہی سے ایسی قوتیں تلاش کی گئیں جنہوں نے نہ صرف سی پیک کو روکا ‘ پاکستان کو اقتصادی طور پر بانجھ کرکے اسے بینک رپٹ کرانے کی پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیا اور خدانخواستہ پاکستان کو ایک بار پھر تقسیم کرنے کے تانے بانے بنے گئے اس مقصد کے لئے میاں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کو پانامہ کیس میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی، اس حوالے سے اب جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان کو دیکھ کر ہر محب وطن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح ملک کی بنیادوں کو ہلانے کے لئے سازشوں کے جال بنے گئے کہاں کہاں سے فنڈنگ کی گئی اور اس سازش کے پیچھے کون کونسی لابی سرگرم تھی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نادانستگی یا دانستگی میں اس سازش میں جولوگ”مددگار” ہوئے تھے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور حالات بدلنے کے لئے سیاسی قوتوںکے ساتھ پہلے جومخاصمت کی پالیسی اختیار کی جاتی رہی اس کے نقصانات کااحساس ہوتے ہی بیک فٹ پر جانے میں ذرا دیر نہیں لگائی گئی کیونکہ ملک دشمن قوتوں کے سازشی نظریات سامنے آتے ہی اور ملک کو دیوالیہ قرار دے کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر جمی ہوئی حریص نظروں کے جو نتائج مرتب ہو سکتے تھے ان کا بروقت احساس ہونے کے بعد الحمد للہ آج صورتحال میں مثبت تبدیلیاں سامنے آرہی ہیں پاکستان کے وجود کو برداشت نہ کرنے والی عالمی قوتوں کی ساری سازشیں ناکام ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ پاکستان کے دشمنوں کی ساری سوچ خاک ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی جو لوگ ان بیرونی قوتوں کے آلہ کار کے طور پرسرگرم تھے ان کے سارے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں اور پاکستان جواللہ کی نصرت سے بطور تحفہ مسلمانوں کو عطا کیا گیا تھا وہ ہمیشہ قائم ودائم رہے گا۔
عرش والے مری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خدائوں سے الجھ بیٹھا ہوں

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''