انسان جتنا دیتا ہے اتنا ہی پاتا ہے

لین دین کے سودے میں انسان جتنا دیتا ہے اتنا ہی پاتا ہے

مسٹر سرجیت سنگھ لانبہ)پیدائش(1931عکسی حافظ(Photographic Memory) کے مالک ہیں۔کسی چیز کو چند بار پڑھ لیں تو وہ ان کو یاد ہو جاتی ہے۔12جون1983ء کو وہ ہمارے دفتر میں آئے تو’’الرسالہ‘‘ کے کئی مضمون انہوں نے لفظ بلفظ زبانی سنا دیئے۔

مسٹر لانبہ وزارت قانون میں ہیں اور دہلی میں کرتی نگر میں رہتے ہیں۔ وہ اقبال کے شیدائی ہیں۔ اقبالیات کے موضوع سے انہیں خاص دلچسپی ہے۔ اقبال کے ہزاروں اشعار ان کو زبانی یاد ہیں اور اسی طرح ان کی زندگی کے حالات بھی۔

مسٹر سرجیت سنگھ لانبہ مئی1983ء میں پاکستان آئے۔ یہاں اقبالیات کے ماہر کی حیثیت سے ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات امیر حسین صاحب)لاہور( سے ہوئی۔انہیں بھی اقبال کے اشعار کثرت سے یاد ہیں۔ انہوں نے مسٹر لانبہ کو چیلنج کیا اور کہا اگر تم ثابت کردو کہ تم کو مجھ سے زیادہ اقبال کے اشعار یاد ہیں تو میں اپنی ہار مان لوں گا اور تم کو پانچ ہزار روپے انعام دوں گا۔ مسٹر لانبہ نے کہا:

میں پچھلے دس سال سے شمع اقبال پر پروانے کی طرح رقص کر رہا ہوں۔ تم مجھ سے زیادہ اقبال کا کلام اسی وقت پیش کر سکتے ہو جب کہ تم نے پروانہ بن کر شمع اقبال پر مجھ سے زیادہ رقص کیا ہو۔ چنانچہ مسٹر سرجیت سنگھ لانبہ مقابلہ میں جیت گئے۔ امیر حسین صاحب اقبال کی جس نظم کا کوئی مصرع پڑھتے مسٹر لانبہ مسلسل اس کے آگے کے اشعار سنانا شروع کر دیتے۔ اس کے برعکس جب مسٹر لانبہ نے اقبال کا کوئی مصرعہ پڑھا تو امیر حسین صاحب اس کے آگے زیادہ نہ سنا سکے۔
اقبالیات کے مقابلہ میں سرجیت سنگھ لانبہ جیت گئے اور امیر حسین لاہوری ہار گئے۔

کسی میدان میں کامیابی کی سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ اس میدان میں آدمی اپنے آپ کو وقف کر دے۔ زندگی کا ہر معاملہ گویا ایک شمع ہے اور اس معاملہ میں وہی شخص سب سے زیادہ آگے بڑھے گا جو سب سے زیادہ اس شمع کیلئے تڑپا ہو، جس نے سب سے زیادہ اس شمع کے لئے رقص کیا ہو۔ زندگی لین دین کا سودا ہے۔ یہاں دینے والا پاتا ہے اور اتنا ہی پاتا ہے جتنا اس نے دیا ہوں یہاں نہ دیئے بغیر پانا ممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کم دے کر زیادہ کا حصہ دار بن جائے۔