بلاوجہ کے سخت انتظامات پر نظرثانی کی ضرورت

عاشورہ محرم الحرام کا بخیر و خوبی اور پرامن طور پر گزر جانا یقینا اطمینان کا باعث امر ہے اس موقع پر پولیس کی جانب سے حفاظت کے جو غیر معمولی اقدامات کئے جاتے ہیں وہ اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن جس طرح حفاظتی اقدامات کے نام پر پولیس پورے شہر کو محاصرے کا شکار بنا کر لوگوں کو آمدورفت یہاں تک کہ ان کی آزادی بھی چھین لیتی ہے وہ ناقابل برداشت امر ہے اس موقع پر نہ صرف ٹرانسپورٹ اور موبائل سروس بند کر دی جاتی ہے بلکہ شہریوں کو بھی گھروں میں محصور کیا جاتا ہے ماضی میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں اس طرح کے انتظامات اور اس پر حکومت کی جانب سے اخراجات اور اقدامات کی ضرورت ضرور تھی لیکن اب کئی سالوں سے محرم الحرام کے جلوس پرامن طور پر اختتام پذیر ہونے لگے ہیں فرقہ واریت اور اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے والے عناصر کی ہر دو فریقوں اور اس کے عوامل میں بھی کمی نظر آتی ہے اس پر اطمینان کے اظہار کے ساتھ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ محرم الحرام کے جلوسوں کے انتظامات کے نام پر پورے شہر کو محصور کرنے کا سلسلہ ترک کیا جائے صرف جلوس کے وقت حفاظتی اقدامات اور انتظامات پر توجہ دی جائے جو جو جلوس ماضی میں جہاں جہاں سے نکالے جاتے رہے ہیں اور جن جن قدیم امام بارگاہوں سے علم وتعزیہ کے جلوس نکالنے کی تاریخ اور ریکارڈ موجود ہے صرف انہی کو اجازت ملنی چاہئے اس کے علاوہ بعد میں رواج پانے والے جلوسوں اور اجتماعات کی خود برادری ہی حوصلہ شکنی کرے جواس لئے بھی ضروری ہے کہ جتنے اجتماعات منتشر ہوں گے یہ اس قدر مرکزیت اور اجتماعیت پر اثر انداز ہوتی جائے گی اور بعید نہیں کہ اس میں تبدیلی او دیگر راہیں نکل آئیں بہرحال مقصود یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق ایک برادری کے جذبات بھی مجروح نہ ہوں اور شہریوں کوبھی بلاوجہ کی تکلیف اور محاصرے کا بھی سامنا نہ کرنا پڑے ان کی آزادی متاثر نہ ہو اور خاص طور پر مریضوں ‘ مسافروں ‘ بیرون ملک جانے والوں اور اس طرح کے دیگر خصوصی نوعیت کے کاموں میں خلل اور رکاوٹ نہ پڑے ۔ اس مقصد کے لئے انجمن تبلیغ الاسلام جیسی تنظیمیں اور تمام فریقوں کے علمائے کرام ذاکرین اور عمائدین مل بیٹھ کر حکومت کو کوئی لائحہ عمل دیں تو موزوں ہو گا تاکہ پولیس کو غیر ضروری بندشوں اور عوام کو تنگ کرنے کا بہانہ میسر نہ آئے اور عوام ان دنوں کو اپنے لئے مشکل ا یام سمجھنے کی بجائے ان ایام میں مذہبی رواداری اور یگانگت کا مظاہرہ کرنے کی طرف مائل ہوں اور یہ دوبارہ معمول کا ایک ایسا عمل بن جائے جو ماضی میں ہوا کرتا تھا اس معاملے کو مسئلہ سمجھ کر اس کے حل کی راہ نکالی جائے تو مشکل نہیں اور نہ ہی اس پر کسی فریق کو اعتراض ہو گا اس لئے کہ ماضی میں خواہ مخواہ قسم کے انتظامات کے بغیر ہی یہ عمل بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا کرتا تھا اب بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے ۔
جھوٹے وعدے اور طفل تسلیاں
گورنر سٹیٹ بینک نے آئندہ ایک سال تک ملک میں مہنگائی برقرار رہنے کا عندیہ دے دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب ‘ یو اے ای اور قطر سے چار ارب ڈالرز جلد مل جائیں گے فنڈز سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ قبل ازیں اگست کے وسط یاپھر ستمبر تک مہنگائی پر قابو پانے اور حالات میں بہتری شروع ہونے کی حکومتی سطح پر حکومتی اور سٹیٹ بینک کی جانب سے عوام کو بار بار یقین دہانیاں کرائی جاتی رہی ہیں جس کے پیش نظر عوام منتظر تھے کہ حالات میں کب بہتری شروع ہوتی ہے اب جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ڈالر کی اڑان بھی رک چکی ہے اور آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط اور ساتھ ہی دوست ممالک کی طرف سے قرض اور امدادی رقوم کی بھی ملنے کی توقع ہے جس کے پیش نظر حالات میں بہتری آنی چاہئے تھی الٹا مہنگائی کے برقرار رہنے کی مدت میں ایک سال کا پھر اضافہ کا عندیہ سمجھ سے بالاتر ہے اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں اور سٹیٹ بینک کے عہدیدار عوام سے غلط بیانی کا ارتکاب اور جھوٹی تسلیاں دیتے آئے ہیں اور عوام کو دھوکہ دیا گیا جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں اس طرح کے بیانات سے حکمرانوں اور مالیاتی اداروں کی کارکردگی کابھی عقدہ کھلتا ہے اس طرح کا بیان ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف کے مترادف ہے اگر صورتحال میں بہتری کا امکان نہ تھا تو عوام کو بہتری کی جھوٹی آس کیوں دلائی گئی عوام اس طرح کے عناصر کو کبھی بھی معاف نہیں کریں گے حکومت کے اس طرح کے ناکام دعوئوں اور وعدوں کی حقیقت کھل جانے کے بعد اب عوام میں اس کے حوالے سے منفی تاثرات میں اضافہ فطری امر ہو گا جس کی ذمہ داری خود انہی پر عائد ہوتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے