اندھیر نگری چوپٹ راج

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن حکومت کو افرادی قوت فراہم کرنے والے محکمہ کے فرانزک آڈٹ میں ناقص انتظامی معاملات محکمے کی اپنی ہی پالیسیوں کی خلاف ورزیوں اور مالی معاملات میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ایک معروف انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے مارچ میں محکمے کے آڈٹ کا حکم دیا تھا آڈیٹر جنرل پاکستان نے حال ہی میں آڈٹ مکمل کرکے وزیراعظم شہباز شریف کو رپورٹ پیش کی۔آڈٹ رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اعلیٰ افسران نے اسٹیشنری اور دیگر اشیاء کی غیر حقیقی خریداری کے ذریعے قومی خزانے کوچارکروڑ آٹھ لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خریداری کے عمل نے جنرل فنانشل رولز کی خلاف ورزی کی ہے جن کے مطابق خریداری عوامی خدمت کی فراہمی کی ضرورت کے مطابق انتہائی کفایتی نرخوں میں ہونی چاہئے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بیوروکریسی کی مینجمنٹ کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملکی معاملات خوش اسلوبی سے چلائے جار ہے ہیں، یہ محکمہ بیوروکریسی کے اعصابی مرکز کے طور پر فعال رہتا ہے اور اس کے افسران وفاقی حکومت کے انتظامی مشیر کے طور پر فرائض انجام دیتے ہیں۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمے نے2016-17اور2017-18ء کے مالی سال کے دوران اسٹیشنری اور اسٹور کی دیگر اشیاء خریدنے کے لئے اوپن ٹینڈرز جاری کیے اور 2018-19ء کے3مالی برسوں کے دوران چار کروڑ آٹھ لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام خریداری متعلقہ پرچیزنگ کمیٹی کی منظوری کے بغیر کی گئی ‘اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے خود ایک انکوائری کی لیکن اس انکوائری کی رپورٹ آڈٹ ٹیم کے ساتھ شیئر نہیں کی گئی۔آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی مالی بے ضابطگیوں کو ختم کرنے کے لئے محکمہ سالانہ پروکیورمنٹ پلان وضع کرے اور اس پر عمل درآمد کرے۔رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اسٹاف اور افسران کی روٹیشن پالیسی کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرکے بھی اس طرح کی بے ضابطگیوں کے مواقع کو کم کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ڈیپوٹیشن پر خود سرکاری ملازمین کے تبادلوں اور تعیناتیوں سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔اس رپورٹ کا اگر مشتے نمونہ ازخروارے کے مصداق جائزہ لیاجائے تو جہاں صرف ا یک شعبے میں سٹیشنری کی خریداری پر اس قدر بدعنوانی کا ارتکاب کیا گیا ہے اگر ان شعبوں اور محکموں جہاں اربوں روپے کے ٹھیکے اور خریداری ہوتی ہے ان محکموں میں کیا عالم ہوگا کچھ محکمے اور شعبے ایسے بھی ہیں جن کا آڈٹ برائے نام ہوتا ہے اور آڈٹ کے نام پر خانہ پری ہوتی ہے جن محکموں اور وزارتوں کا آڈٹ ہوتا ہے اس کے آڈٹ پیپرا اور اعتراضات دور کرنے کی کم ہی زحمت کی جاتی ہے جہاں بدعنوانی کی نشاندہی ہوتی ہے اور آڈیٹرز اپنا کام مکمل طور پر انجام دے بھی دیں بدقسمتی سے وہ بھی بے نتیجہ اور بے ثمر ہی ٹھہرتے ہیں خود آڈٹ کے محکمہ میں ایسی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں اور ملی بھگت کی وہ انتہا ہے کہ آڈٹ کا نظام ہی لاحاصل نظر آنے لگتا ہے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو گی کہ ہمارے ملک میں رشوت وبدعنوانی اور حرام کمائی کو دل سے برا سمجھنے اور اس طرح کے کاموں میں ملوث افراد سے پہلو تہی اور کنارہ کشی اختیار کرنے کا رواج ہی نہیں بدعنوان شخص مالدار ہوتو اس کو معاشرے میں ایک عام آدمی کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر حیثیت دی جاتی ہے یوں ایک بدعنوان معاشرہ تشکیل پا چکا ہے اور بدعنوانی ہماری قوم اور معاشرے میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اسے ذہنی طور پر قبولیت کا درجہ مل چکا ہے اس طرح کی صورتحال میں احتساب کی توقع ہی عبث ہے بیورو کریسی ہو یا حکومت میں آنے جانے والے لوگ جس جس کو موقع ملتا ہے اور جس جس کے دور میں لوگوں کو موقع ملا ہے الا ماشاء اللہ کسی نے دریغ کم ہی کیا ہو گا یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے بھی کامیاب نہ ہو سکے اور جن کا دعویٰ ہی نہیں ان سے توقع ہی عبث ہو گا ۔ جو رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی ہے اب اس رپورٹ کے حوالے سے تادیبی کارروائی وزیر اعظم کی ذمہ داری بنتی ہے جب تک ٹھوس بنیادوں پر باریک بینی سے مالی معاملات کا جائزہ لیکر رپورٹس مرتب کرکے بلا امتیاز احتساب کا حقیقی عمل شروع نہیں ہوتا اس وقت تک بہتری کی توقع عبث ہے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں کروڑوں کی کرپشن ہی پر نیب اب کارروائی کی مجاز ہے گویا لاکھوں کی کرپشن اور بدعنوانی کی جازت دی گئی ہو ‘ اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کے اداروں سے یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ اپنے طور پر محکمانہ سطح پر بدعنوانی کے مقدمات قائم کرکے کوئی کارروائی کر سکیں وہ بھی یا تو خود بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں یا پھر حکمرانوں کے اشارہ آبرو کے منتظر ہوتے ہیں ایک خاص گریڈ کے افسران کی گرفتاری اور ان کے خلاف کارروائی کے لئے حکومت وقت کی اجازت درکار ہوتی ہے یہ محکمے اگر چاہیں بھی تو ان کو گرفتاری کی اجازت نہیں ملتی کیا یہ سارا عمل بدعنوانی کے فروغ اور اس کو پنپنے دینے کاماحول فراہم نہیں کرتاملک میں بدعنوانی کا رویا تو بہت رویا جاتا ہے مگر گھپلوں کی روک تھام کے لئے کوئی موثرنظام وضع کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی ہر سیاستدان کی نظر میں دوسرا سیاستدان چور ہوتا ہے اور ہر گزری حکومت کو آنے والی حکومت بدعنوان قرار دیتی ہے مگر کسی کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر مقدمات کا اندراج کرکے بلا امتیاز کارروائی نہیں ہوتی سیاسی انتقام کے باعث قائم ہونے والے لاحاصل مقدمات بھی اپنی جگہ حقیقی احتساب کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں شفافیت اور کڑے احتساب کے تقاضوں کو سمجھنے ان کو نبھانے اور اس حوالے سے موثر قانون سازی کی ضرورت کا ہنوز ادراک و احساس ہی نظر نہیں آتا جب تک ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے عوام اور حکومت دونوں سطحوں پر کام نہیں ہوگا بدعنوانی کو لعنت قراردے کر بدعنوان عناصر سے واضح طور پر نفرت و بیزاری کا برملا اظہار سامنے نہ آئے گا خیر کی کوئی توقع نہیں ۔ ملک کو اس گرداب سے نکالنے کے لئے جہاں سیاسی استحکام اور ٹھوس فیصلوں کی ضرورت ہے وہاں بدعنوانی کے سدباب کے لئے بھی واضح اقدامات کرنے ہوں گے اس کے بغیر اس صورتحال کا تدارک اور اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  ریگی ماڈل ٹاؤن کا دیرینہ تنازعہ