افہام و تفہیم سازگار فضا میں ہی ممکن ہوگا

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی خاطر وزیر اعظم شہباز شریف اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر ہائوس لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات کے بارے میں سب کو سوچنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو اپنی انا ختم کرکے ایک میز پر بیٹھنے کی ضرورت ہے، صدر کا کردار آئینی ہوتا ہے لیکن میری خواہش ہے کہ ملک کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کو ہمیشہ اداروں پر تنقید کرنے سے روکا ہے۔ میری کوشش ہوگی کی دونوں میں نفرتیں کم ہوں اور جلد انتخابات کے لیے ماحول سازگار بنایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کا تنازع ملک کے لیے خطرناک ہے۔صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے پہلی مرتبہ اس امر کا احساس دلایا ہے کہ وہ کسی جماعت کے کارکن اور اس جماعت کے صدر نہیں بلکہ صدرپاکستان ہیں ا ن کی سوچ کی تبدیلی یقینا احسن امر ہے لیکن وفاق میں حکومت کی رخصتی کے بعد ان کا حلف اور عہدہ جن آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا متقاضی تھا بدقسمتی سے انہوں نے برعکس کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان صد کو بھی متنازعہ بنا دیا تھا صدرمملکت کو سمریوں کو مسترد کرنے اور واپس بھجوانے کا پورا حق حاصل ہے لیکن علاوہ ازیں جانبداری کا جو مظاہرہ ان کی جانب سے سامنے آتا رہا ہے اس کی گنجائش نہیں تھی جہاں تک ان کی پیشکش کا تعلق ہے ایسا لگتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور اب معاملات سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی سے بڑھ کر آئینی اداروں کے فیصلوں کو لاگو کرنے اور اداروں پر تنقید میں سرخ لکیر عبور کرنے کی غلطی جیسے معاملات حاوی ہیں جب تک یہ ان امور کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا سیاسی مذاکرات ومفاہمت کی کوشش بے وقت کی راگنی اور ثانوی بات ہے سیاست میں برموقع فیصلہ اور قدم اٹھاے کی اہمیت ہوتی ہے موقع پر فیصلہ کرنے میں تاخیر اور موقع ملنے پر وسیع تر سوچ کا مظاہرہ نہ کرنے کی غلطی ہر حکمران سے ہوتی آئی ہے جس کا ان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے ۔ ہمارے تئیں جب تک آئینی معاملات اور اداروں کے حوالے سے اڑی ہوئی گرد بیٹھ نہیں جاتی ملک میں سیاسی مذاکرات کرانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ان معاملات کونمٹانے کے بعد ہی فریقین کا تعین ہو سکے گا جس کے بعد ہی آئندہ کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے ۔
عوامی تشویش بے جا نہیں
خیبرپختونخوا کے علاقے سوات کے ملحقہ پہاڑوں پر عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پورے سوات میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے زور دیا کہ وہ کسی بھی عناصر کو علاقے میں محنت سے حاصل کیا گیا امن سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔شہریوں کی جانب سے ہم سوات میں امن چاہتے ہیںاور دہشتگردی سے انکارکے عنوان سے مظاہرے تحصیل خوازہ خیلہ میں مٹہ چوک اور تحصیل کبل کے کبل چوک کے نزدیک کیے گئے۔مظاہرین سفید اور کالے جھنڈے تھامے ہوئے تھے، انہوں نے نعرے بھی لگائے کہ ‘ہم سوات اور خیبرپختونخوا میں امن چاہتے ہیں۔قبل ازیں دیر میں عوام نے اس طرح کا مظاہرہ کیا تھا جس سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ علاقے کے عوام کو صورتحال پر تشویش ہے اور وہ اس کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے کے لئے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے سوات اور دیر بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام ایک بہت ہی برے اور بھیانک تجربے سے گزر چکے ہیں جس کی بنا پر جیسے ہی شائبہ ہونے لگے تو ان کا احتجاج فطری امر ہے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدہ اقدامات کے ذریعے عوام کے خدشات کا ازالہ کرنے میں مزید تاخیر کا مظاہرہ نہ کریں۔
دو دن کی چاندنی پھر اندھیری رات
پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی ایک خاتون افسر کی جانب سے ریسٹورنٹس کے اچانک معائنے اور جرمانہ عائد کرنے کی جو سرگرمی اچانک شروع کی گئی تھی ایک ہی روز بعد حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے والی صورتحال سامنے آنالمحہ فکریہ ہے ۔ عوام کا ان کی سرگرمی سے بڑی توقعات وابستہ کرنا فطری امر تھا لیکن انہوں نے چند ریسٹورنٹس اور آئس کریم فروخت کرنے والوں ہی کے خلاف کارروائی پر اکتفا کیا حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ جس طرح تندوروں پر روٹی کی قیمت تیس روپے کی وصولی کے باوجود اس کا وزن قیمت کی بہ نسبت نصف ہے ۔ قصائی ہوں یا پرچون فروش ہرجگہ سرکاری نرخ نامے کا مذاق اڑایا جاتا ہے مگر ضلعی انتظامیہ کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اصولی طور پرصحت و صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کو یقینی بنا کر خوراک کی تیاری کے عمل کو دیکھنے کی ذمہ داری حلال فوڈ اتھارٹی کے عملے کی ہے اس کا خاتون ای سی کو شوق کیوں چرایا تھا کہیں اس کے پس پردہ ان کی کوئی ذاتی پرخاش تو نہیں تھی بہرحال اس سے قطع نظر حلال فوڈ ا تھارٹی کا عملہ ہو یا ضلعی انتظامیہ کے افسران ہر دو کے لئے کرنے کے کام تو بہت ہیں بشرطیکہ وہ سنجیدہ ہوں۔توقع کی جانی چاہئے کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک و حلال فوڈ اتھارٹی کے حکام اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں گے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کو گرانفروشوں اور ناقص خوراک فراہم کرنے والے عناصرکو لگام دیں گے خاص طور پر کم وزن روٹی اور برائے نام ڈبل روٹی کی دگنی قیمت وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور عوام کو لوٹنے والے عناصر کو پس زندان دھکیل دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ریگی ماڈل ٹاؤن کا دیرینہ تنازعہ