معاشی زبوں حالی اور سیاسی کشمکش

ملک میں11 جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد اور سابق وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی بدستور جاری ہے جس کی وجہ سے سیاسی صورتحال دن بدن سنگین نوعیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ سیاسی محاذ آرائی کے ملکی معیشت پر بھی سنگین منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے ایک انٹرویو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے موجودہ حالات کو 1971ء جیسی صورت حا ل سے تشبیہ دی جو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست(پاکستان) کے دو لخت ہونے کی وجہ بنی تھی اور بنگلہ دیش عالمی نقشے پر ایک نئی ریاست کے طور پر ابھرا تھا۔
جہاں تک معاشی صورتحال کا تعلق ہے تو پاکستان اس وقت دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے طور پر اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ممکنہ دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنا ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے امریکی نائب وزیر خارجہ کو فون کیا اور اسلام آباد کو بقیہ ایک بلین ڈالر کی قسط جاری کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں امریکہ کی مدد طلب کی، جسے ملک کے سپہ سالار کی طرف سے ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد اور اپوزیشن آئے دن ایک دوسرے کیخلاف اشتعال انگیز بیان بازی سے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا رہے ہیں۔کسی بھی فریق کو یہ احساس نہیں کہ وہ سنگین معاشی مسائل سے نظریں چرا کر ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔
بلاشبہ فوج بھی اس سوال پر غیر جانبدارانہ رائے دینے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے کہ کیا موجودہ حالات میں نئے انتخابات ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے؟ اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ نئے انتخابات ہی بہترین آپشن ہے، تو اسے حکمران اتحاد کو مزید وقت ضائع کیے بغیر اس فارمولے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کی بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا معاملہ، چیف الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق جیسے مسائل کو بھی فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن اگر فوج یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں ملک نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا، تو اسے پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے واپس لینے، پارلیمنٹ میں واپس آنے اور نظام کو چلنے دینے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ہاتھ ملا لیں۔مذکورہ بالا مشق کی آئینی حیثیت اور فوج کے ثالثی کردار کے نتیجے میں نکلنے والے حل کو یقینی بنانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ اسی طرح دونوں سیاسی فریقوں کی باہمی مشاورت سے کیے گئے فیصلوں کو قومی ایجنڈے کا درجہ دیا جائے اور آئندہ انتخابات میں جیتنے والی کوئی بھی جماعت اس ایجنڈے پر عمل درآمد کی پابند ہو۔ جیتنے والی کسی بھی پارٹی کا اپنا منشور وسیع تر قومی مفاد میں کچھ عرصے کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
حکمران اتحاد اور اپوزیشن کو اپنے اختلافات ایسے ہی ختم کردینے چاہئیں جس طرح 2006 ء (جب جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں تھے) پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دوریاں مٹا دی تھیں اور نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی کے دوران لندن میں ہونے والی ایک ملاقات میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔اگر کئی دہائیوں کی محاذ آرائی کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اتحادی بن سکتی ہیں تو پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کیوں نہیں؟۔
چونکہ معیشت شدید زبوں حالی کا شکار ہے اس لیے تمام فریقوں کو ہنگامی بنیادوں پر اس کے مسئلے سے نمٹنا ہوگا۔ بہترین قومی مفاد میں تمام فریقوں کو چاہیے کہ وہ اندرون اور بیرون ملک اپنے اپنے حامیوں اور پیروکاروں(فالورز)کو بیرون ممالک میں موجود اپنے تمام اثاثے پاکستان واپس لانے کی ہدایت کریں، خواہ بیرون ملک قانونی اثاثے بھی ہیں تو انہیں بھی واپس لائے جائیں۔قومی خودمختاری کی قیمت پر دوسرے ممالک سے پیسے مانگنے اور پاکستان کے باقی ماندہ اثاثے گروی رکھنے سے پہلے حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ اس آپشن کو ترجیحی بنیادوں پر بروئے کار لایا جائے۔ اپنا پیسہ پاکستان واپس لانے والوں کو ہیرو سمجھا جائے۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ہمیں ایک نیا آغازکرنا ہو گا اور قومی مفاد کے لیے انفرادی یا ذاتی مفادات کو قربان کرنا ہو گا۔
(بشکریہ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی )

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند