آزادی کا جشن کشیدگی کے سنگ

اہل پاکستان نے اپنا پچہتر واں یوم آزادی شدید کشیدہ حالات میں منایا ۔پی ٹی آئی نے چودہ اگست اور اپنی احتجاجی تحریک کی مناسبت سے تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات کو لاہور میں طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔ یہ جلسہ تیرہ اگست کو شروع ہوا اور آتش بازی اور شعلہ بیانی کے ساتھ چودہ اگست کو اختتام کو پہنچا۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اس موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر میثاق معیشت کی پیشکش کی ۔عملی طور پر کشیدگی کے خاتمے کی کوئی پائیدار کوشش کسی جانب سے نہیں ہورہی ۔صدر مملکت عارف علوی نے البتہ گورنر ہائوس میں عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان معاملات طے کرانے کے لئے ثالثی کی پیشکش کی ۔سیاسی استحکام کی منزل سے دور معاشی ونٹی لیٹر پر پڑا پاکستان اپنی آزادی کا لہو کس ہاتھ پر تلاش کرے ؟اس ماہ وسال کی بیلنس شیٹ مرتب کی جائے تو کچھ کامیابیوں کے باوجود پاکستان کی آزادی کا جغرافیہ اور حلیہ بگڑا ہوا ہی نظر آتا ہے ۔ پچہترسال قوموں کی زندگی میں زیادہ بڑا عرصہ نہیں ہوتا مگر قوموں کی ترقی اور خوش حالی کی سمت متعین کرنے کے لئے یہ عرصہ کافی ہوتا ہے۔پاکستان دنیا کے نقشے پر نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی واحد ریاست تھی ۔ اس لحاظ سے یہ خطے میں مسلم برصغیر کا نمائندہ ہے ۔ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ۔مسلمان حکمرانوں نے راجواڑوں پر مشتمل اس منتشر اور منقسم معاشرے کو مرکزیت عطا کی ۔نئی اور جدید تہذیب سے آشنا کیا ۔عربی ،ایرانی اور افغانی تہذیبوں نے چھوت چھات اور ذات پات پر مبنی ہندو معاشرے کو جدتوں اور تنوع سے آشنا کیا ۔ مسلم صوفیاء نے اس خطے کے راندہ درگاہ عوام کو شرف انسانیت سے آشنا کیا ۔جن طبقات کے وابستگان کو کوئی قریب نہیں پھٹکنے دیتا تھا مسلم صوفیا ء نے انہیں اپنے برابر بٹھایا ،اپنے دسترخوان پر شریک کیا اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا اور یوں دلوں کی تسخیر ہوتی گئی یہی وجہ ہے کہ جب برصغیرپر مسلمانوں کا طویل اقتدار انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوا تو مسلم تہذیب یہاں بدستور قائم رہی اورپھلتی پھولتی رہی ۔اگر یہ تہذیب محض اقتدار اور طاقت کے زور پر پھیلی ہوتی تو انگریز کے ڈھائی سو سالہ دور میں اس کا وجود ختم ہوچکا ہوتا ۔انگریز ی راج کا سورج جب عالمی سطح پر غروب ہونے لگا تو برصغیر پر لہراتا یونین جیک اتارنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔اس دوران برصغیر کے بہت سے علاقے ایسے تھے جہاں مسلمان اکثریت حاصل کر چکے تھے ۔انگریز کے جانے کے بعد آبادیوں کے درمیان توازن کیسے رکھا جانا ہے اور ہندوستان کو متحد رکھنے اور کاروبار حکومت چلانے کے لئے کون سا نظام تشکیل دیا جانا ہے ؟یہ انگریز ،ہندو اور مسلمان قیادت تینوں کو درپیش ایک اہم سوال تھا ۔اس گتھی کو سلجھانے کے لئے کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت اور انگریز نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا ۔مسلمان قیادت اپنے تشخص اور ثقافت کی بنیاد پر اپنے لئے کچھ ضمانتیں اور مراعات چاہتی تھی ۔ہندو قیادت مسلمانوں کو الگ شناخت دینے اور تسلیم کرنے سے انکاری تھی ۔جس سے مذاکرات ٹوٹتے جڑتے رہے۔رفتہ رفتہ کانگریسی قیادت کے رویے سے مایوس ہو کر مسلم لیگ کی قیادت الگ وطن کے نکتے پر متفق ہوتی چلی گئی ۔ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی امیدیں ختم ہوگئیں تو مسلم لیگ مطالبہ پاکستان کے ساتھ سامنے آگئی ۔یہ جنگ قانون ،آئین، دلیل اور ووٹ کے ذریعے آگے بڑھتی چلی گئی اور آخر کار چودہ اگست کو دنیا میں نظریے کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے قیام پر منتج ہوئی ۔کانگریسی قیادت نے پاکستان کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ان کا خیال تھا کہ پاکستان چند سال اپنا وجود برقرار رکھنے کے بعد پکے ہوئے پھل کی مانند دوبارہ ان کی جھولی میں آن گرے گا۔اسی لئے کانگریسی قیادت نے کشمیر جیسی مسلمان اکثریتی ریاست کو ہتھیانے کی کوشش کی ۔بھارتی قیادت کا یہ خواب محض سراب ہی ثابت ہوا ۔پاکستان مشکلات کے باجود شاہراہ ترقی پر گامزن ہوگیا ۔بھارت نے کشمیر کا مسئلہ اُلجھا کر خطے کے امن کی بنیاد میں ٹائم بم رکھ چھوڑا ۔یہ ٹائم بم وقتاََ فوقتاََ جنگوں کی صورت میں پھٹنے لگا ۔پاکستان کی قیادت نے یہ طے کر لیا کہ اب جبکہ ایک ملک حاصل کر لیا گیا ہے اسے بھارت کی دستبرد سے بچانا اور زمانے کے سردوگرم سے محفوظ رکھنا ہے۔اس کوشش میں پاکستانی اداروں سے غلطیاں بھی ہوئیں ۔اس کے حکمرانوں سے حماقتیں بھی سرزد ہوئیںمگر دشمن کی سازشیں بھی جاری رہیں۔المیہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کا ہمسایہ نہ بن سکا بلکہ روزاول کی طرح دشمن ہی رہا۔بھارت کا یہ کردار اب تک جاری ہے۔آج پاکستان حالات کے چکر سے نکلتا جا رہا ہے ۔دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کررہا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری ایک نئے اور خوش حال پاکستان کی نوید سنارہی ہے ۔امن ،استحکام ،ترقی اور خوش حالی کی منزلیں پاکستان کے لئے اپنی بانہیں وا کئے ہوئے ہیں۔یہی بات کھلے دشمنوں اور دوست نما دشمنوں کو گوارا نہیں ۔وہ مل جل کر پاکستان کو اقتصادی راہداری اور چین کے عالمی اقتصادی اُبھار کے مثبت اثرات سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی