ملعون سلمان رشدی کا عبرتناک انجام

نیویارک میں ایک تقریب کے دوران شدید زخمی ہونے والا ملعون سلمان رشدی موت و حیات کی کشمکش میں ہے، اس کی ایک آنکھ ضائع ہونے کی اطلاعات ہیں، جبکہ جسم کے کئی حصوں پر کاری ضربیں آئی ہیں، زخموں کی شدت کی وجہ سے اسے وینٹی لیٹر پر رکھنا پڑا۔ سلمان رشدی طویل عرصہ سے روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا مگر جونہی وہ ایک تقریب میں پہنچا تو ہادی ماتر نامی ایک نوجوان نے اس پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ مغربی ممالک اس واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمان اسلام اور مقدس ہستیوں پر اعتراض اٹھانے پر کس قدر حساس ہیں کہ کئی سال گزرنے کے باوجود سلمان رشدی کو نہیں چھوڑا، کیونکہ ہر مسلمان کا دل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہے جبکہ سلمان رشدی کی جسارت نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا تھا۔ اصل میں ملعون سلمان رشدی جیسے لوگ ہی آزادی اظہار کی آڑ میں انتشار پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں، اہل مغرب کو یہ بات بخوبی معلوم ہونی چاہئے کہ مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیں۔
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اہل مغرب مسلمانوںکے جذبات کا احترام کریں اور ایسی فضا قائم کرنے سے گریز کریں جس سے انتشار پیدا ہوتا ہو مگر بد قسمتی سے مغربی ممالک گستاخانہ فعل کے مرتکب افراد کو اپنے ہاں پناہ دے کر ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ملعون سلمان کے ساتھ جو ہوا وہ اس کے گستاخانہ فعل کا نتیجہ ہے، اس واقعہ میں اہل مغرب کے لیے پیغام ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی جسارت کا مرتکب ہو گا اس کا انجام سلمان رشدی جیسا ہو گا۔
معاشی بحران میں پاکستان کیلئے سعودی تعاون
پاکستان نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے تعاون سے عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کی ایک اور شرط پوری کر دی ہے۔ امریکی جریدے بلوم برگ کے مطابق سعودی وزارت خزانہ اگلے ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں اپنے تین ارب ڈالرز کے ڈیپازٹ کی تجدید کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 10ماہ کے لیے 10 کروڑ ڈالر ماہانہ فراہم کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جسے اضافی امداد کے طور پر دیا جائے گا۔
ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور دیوالیہ ہونے کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں، یقیناً سعودی عرب کا یہ اقدام ہماری معیشت کے حوالے سے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ سعودی عرب کے مجوزہ مالی تعاون سے جہاں آئی ایم ایف کے پیکج کے اجراء کی راہ ہموار ہوگی وہاں ملکی معیشت پر بھی اس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے، ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہوگا اور سٹاک مارکیٹ میں بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ خاص طور پر اگر پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 10ماہ کے لیے 10 کروڑ ڈالر ماہانہ ملتے ہیں تو اس سے ملک میں پٹرولیم کی قیمتوں میں نمایاں کمی آنے کا امکان ہے جس سے ملک میں مہنگائی بھی کم ہوگی کیونکہ حکومت عام آدمی کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے اور آئی ایم ایف سے پیکج کے اجراء میں سعودی عرب کا اہم کردار ہے۔ نہ صرف اس موقع پر بلکہ ہر مشکل میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ تاہم پاکستان کی سیاسی قیادت نے ملک کو خود کفیل بنانے اور اپنے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کے حوالے سے مطلوبہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں ہر کچھ عرصہ کے بعد برادر اسلامی ممالک اور دیگر دوست ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ امداد ہمارے معاشی مسائل کا وقتی حل ہے دیرپا نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک خود مختار اور خود دار قوم بنیں تو پھر ہمیں خود کفالت کی طرف جانا ہوگا۔ بلاشبہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے جنہیں درست انداز میں بروئے کار لانے اور نظام میں وسیع تر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یہ سب کر لیں تو کوئی وجہ نہیںکہ ہم ایک خوشحال اور باوقار قوم نہ بن سکیں۔
تحریک انصاف کا لاہور جلسہ
پاکستان تحریک انصاف نے ہاکی گراؤنڈ لاہور میں بڑا جلسہ کیا ہے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں پارٹی کے سربراہ عمران خان نے الیکشن کمیشن اور مخالف سیاسی جماعتوں پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی آزادی کی جد و جہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم امپورٹڈ حکومت کو فارغ کر کے اور الیکشن نہیں کرواتے۔ انہوں نے ملک بھر میں مزید جلسے کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگلے ہفتے راولپنڈی میں جلسہ کروں گا، جس کے بعد کراچی جاؤں گا۔
عمران خان کے ملک گیر جلسوں سے یقیناً سیاسی عدم استحکام اور انارکی کی فضا قائم ہوگی، جس سے معیشت میں بہتری کے جو آثار دکھائی دے رہے ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی سرگرمیاں ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت کا حق ہے مگر ملکی مفاد سیاسی مفاد سے مقدم ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، سیاسی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جب ملک پر مشکل وقت آئے تو سیاسی قیادت کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے تو ایسے موقع پر سیاستدانوں کو سنجیدگی کا مظاہر کرنا چاہیے، موجودہ حالات میں مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا راستہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مل جل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنا چاہیے۔ اگر سیاسی قیادت متحد ہو کر ملک کو بحرانوں سے نجات دلاتی ہے تو یقیناً اس سے عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد بڑھے گا اور ملک میں جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟