قومی قیادتوں کی لہر اور سحر کے موسم

جمہوریتوں میں ہر لیڈر کا ایک زمانہ ہوتاہے جس کا دورانیہ دس سے پندرہ برس ہوتا ہے۔یہ وہ عرصہ ہوتا ہے جب نوجوان نسل اپنے آئیکون سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے ۔اسے ملکی سیاسی منظر پر وقار اور اعتبار عطا کرتی ہے اور یہی بات اس لیڈر کے عالمی تعارف میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔پھر اس دور کی یہی جوان نسل ادھیڑ پن کے دور میں داخل ہوتی ہے جس کے ساتھ ہی اس کی ضرورتیں مجبوریاں اور تصورات بھی تبدیل ہوتے ہیں اور اس کی جگہ ایک اور تازہ دم نسل نئے خوابوں اور تقاضوں کے ساتھ میدان میں اپنے خواب بُننے اور تراشنے میں مگن ہوتی ہے۔نوخیز جوانیاں کچھ کرنے کے جنون میں مبتلا ہوتی ہیں ۔یہ بڑے خواب دیکھنے کازمانہ ہوتا ہے کچھ نیا اور اچھوتا کر گزرنے کی تمنا سینوں میں موجیں مارتی ہے بالکل ایسے ہی جس طرح ایک طلوع ہونے والے سورج کے سامنے کرنیں بکھیرنے کو ایک وسیع دنیا ہوتی ہے۔یہ نئی نسل نئے حالات کے مطابق اپنے خواب تراشتی ہے ۔گزشتہ چند دہائیوں میں امریکہ اور برطانیہ جیسی جمہوریتوں میں کیسے کیسے نام پردہ ٔ سیمیں پر اپنی مقبولیت کی چمک دمک بکھیرکر وقت کی طویل راہو ں میں گم ہوتے رہے ۔اسی کی دہائی میں پاکستان کا کوئی بھی اخبار برطانیہ کی صنفِ آہن مسز مارگریٹ تھیچر کی کامیابیوں کی کہانیوں اور تصویروں سے خالی نہیں ہوتا تھا ۔یہی دور امریکہ کے رونالڈ ریگن کی مقبولیت کا تھا جو کمونزم کے ساتھ فیصلہ کن پنجہ آزمائی کے باعث امریکی عوام سمیت دنیا بھر کی جمہوریتوں میں مقبولیت کے بام ِ عروج پر تھے ۔ٹونی بلیئر نے مسلسل تیسری بار لیبر کو کامیابی دلائی مگر تیسری باری مکمل کرنے کی خواہش ناتمام ہی رہی کیونکہ دس سال کے عرصے میں ایک پرانی نسل کی جگہ ایک اور نسل فعال ہو چکی تھی۔ وقت کے ان مقبول جمہوری حکمرانوں کے اس انجام پر یہی شعر صادق آتا ہے
شوکت ہمارے ساتھ بڑاحادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
جمہوری حکمرانوں کے رومانس کا شکار بوڑھے منظر سے ڈھل جاتے ہیں یا قویٰ کا اضمحلال انہیں غیر فعال کرچکا ہوتا ہے،نوجوان ادھیڑ پن کا شکار ہوتے ہیں یوں وقت کا پہیہ گھومتا چلا جاتا ہے اورسٹیج پر نئے چہرے جلوہ افروز ہوتے چلے جاتے ہیں۔پاکستان ایک لڑکھڑاتی ہوئی جمہوریت سہی مگر اس کا سسٹم بہرطور جمہوریت پر ہی قائم ہے ۔دس سال کے تعطل کے بعد جو نظام بحال ہوتا ہے اس کی خدوخال جمہوریت سے ہی مشابہہ ہوتے ہیں ۔جنرل یحیٰ خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں کا اختتام جمہوری نظام کی بحالی پر ہونا اس کا ثبوت ہے۔ملک کی حکمرانی جنرل ضیاء الحق کے پاس تھی اور وہ اس رومانس کو ختم کرنے کے لئے مسلسل کاریگری میں مگن رہے مگر خلق خدا کے دلوں میں بھٹوز کی ہی محبت موجزن رہی۔صاف نظر آتاتھا کہ جب بھی مارشل لاء کی تاریک رات ڈھل گئی اقتدار کا ہُما بھٹوز کے کندھے پر جا بیٹھے گا ۔پھر 1986میں بے نظیر بھٹو لاہور ائر پورٹ پر اُتریں عوام کا سیلاب انہیں خوش آمدید کہنے کو موجود تھا ۔طاقت کے اس مظاہرے کے چند دن بعد بے نظیر بھٹو نے اخبارنویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ چاہتیں تو گورنر ہائوس پر قبضہ کراسکتی تھیں۔ جنرل ضیا الحق کے اقتدار کے گیارہ برس جس بات کو انہونی بنانے میں صرف ہوئے وہ ایک روز ہو کر رہی۔نوے کی دہائی میاں نوازشریف کے رومانس کادور تھا جو بنیادی طور پر عالمی سطح پر دم توڑتی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم میں دائیں بازو کے آخری علمبردار تھے ۔اس کے ساتھ ہی انہیں پنجاب کی توانا آواز سمجھا اور جانا جا رہا تھا ۔نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو ان کا مقابلہ کرتی نظر آتی تھیں مگر پنجاب میں وہ بتدریج کمزور ہو رہی تھیں اور نوازشریف کا سحر پوری طرح برگ وبار لارہا تھا ۔جنرل مشرف کا دو رلد گیا تو جلاوطن میاںنوازشریف کی مقبولیت اور لہر وسحر کو راہ دئیے بنا کوئی چارہ نہیں رہا اور نواشریف اسی ایوان میں وزیر اعظم بن کر داخل ہوئے جہاں سے انہیں کنپٹی پر بندوق رکھ کر قیدی کی طرح نکالا گیا تھا ۔عمران خان اپنی برطرفی کے بعد مسلسل یہ بات ثابت کررہے ہیں کہ یہ ان کا دور ہے ۔وہ نوجوانوں کو اپنے محاورے ،اصطلاحات بیانیہ سمجھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔لاہور کے جلسے بھی نے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لئے کوئی کاریگری ،فنکاری اور مہارت کارگر ثابت نہیں ہوگی۔انتخابات کی صورت میں اس لہر کو منطقی انجام کی طرف بڑھنے دینا ہوگا یہی آج کی نسل کا تقاضا اور خواہش ہے ۔چند برس بعد جب اس نسل کی جگہ ایک اور تازہ دم نسل آئے گی تو اس کے محبوب ِنظر بھی بدلے ہوں گے اور مقاصداور ضرورتیں بھی بدلی ہوں گی یہی جمہوری تاریخ کا سبق ہے۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں