ذرا دریا کی تہہ تک بھی پہنچ جانے کی ہمت کر

ایک بار پھر لندن کی گونج سنای دے رہی ہے ‘ بہرحال اتنا ضرور ہے کہ ماضی کی طرح اب کی بار اسے ”لندن پلان” سے تعبیر نہیں کیا جا رہا ‘ لندن پلان ‘ یا لندن سازش کی بازگشت پہلی بار ایوب خان کے دور میں سنائی دی تھی جب پاکستان کے اس دور کے چند جید سیاسی رہنما لندن میں اکٹھے ہوئے تھے’ ان رہنمائوں میں ممتاز دولتانہ ‘ سردار شوکت حیات ‘ عبدالولی خان اور بعض دیگر رہنما شامل تھے ‘ ا صولی طور پر تو سیاسی رہنمائوں کے اکٹھ یا ملاپ میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ نہ ہی اس پر کسی کو اعتراض ہونا چاہئے ‘ تاآنکہ وہ واقعی ملک و قوم کے خلاف کسی گہری سازش کے تانے بانے نہ بن رہے ہوں ‘ یہ وہ دور تھا جب ایوبی آمریت نے اپنی جڑیں بہت گہری کر رکھی تھیں ‘ پہلے مارشل لاء لگا کر سیاست کو ملک سے دیس نکالا دے دیا تھا اور پھر ایک خود ساختہ آئین (1962ء کا آئین )نافذ کرکے عملاً فرد واحد کی حکومت قائم کر دی تھی جن لوگوں نے بہ امر مجبوری اس آئین کے تحت انتخابات میں بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت حصہ لیا تھا اور قومی و دو صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت اختیار کی انہی میں سے بعض جی دار ایسے بھی تھے جو قدم قدم پر ایوبی آمریت کو چیلنج کرتے رہتے تھے انہی میں سے ایک شخص نے 1962ء کے آئین کو لائلپور(فیصل آباد) کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آئین تو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہے جہاں آپ کسی بھی آئینی شق کو دیکھیں تو چلتے چلے آپ کا سامنا یوب خان سے ہوجاتا ہے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی بھی یہی مثال ہے آپ شہر کے کسی بھی حصے سے چل کر آئین ہر بازار کا اختتام وہاں کے گھنٹہ گھر پر ہوتا ہے گویا وہ آئین ‘ گلیاں ہون سجنیاں تے وچ مرزا یار پھرے ‘ ہر آئینی شق کی تان ایوب خان پر آکر ٹوٹتی تھی ‘ ایسی صورت میں اگر اپڈو کے قانون کی مدت ختم ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما اگر قانونی اور آئینی جنگ لڑنے کے لئے کمربستہ ہو کر ایوبی آمریت کو ختم کرکے انہی کے دیئے ہوئے آئین کے تحت انتخابات کی تیاری کرنے کے لئے اکٹھے ہو رہے تھے تو ان کی سرگرمیوں کو ”سازش” کیونکر قرار دیا جا سکتا تھا مگر اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ آئینی اور قانونی سیاسی سرگرمیوں کو بھی”سازشی نظریئے” سے جوڑنے کی تاریخ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام ہی سے”لاگو” کرتے ہوئے برسراقتدار لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں حالانکہ سیاسی اتحاد بنانے اور سیاسی سازش میں بہت فرق ہے ‘ جیسے کہ چند برس پہلے مبینہ طور پر ایک علامہ اور ایک سیاسی رہنماء نے ایک حاضر سروس شخص کے ساتھ مل کر ایک آئینی حکومت کے خلاف اکٹھ کیا اور نہ صرف دھرنے دیئے بلکہ محولہ حکومت کے اہم رہنماء کو آئینی اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے کسی نامعلوم بلیک لاء ڈکشنری کے ذریعے نااہلی کی سزا دلوائی ‘ اس کے بعد جو کچھ اس ملک کے ساتھ بیتی وہ کوئی ایسی کہانی نہیں ہے جس کے تانے بانے تلاش کرنے میں زیادہ تحقیق پر مجبور ہونا پڑے یعنی وہ ایک تاریخ ہے جس کے ہر صفحے پر ملک کی تباہی اور بربادی کی پوری تفصیل روز روشن کی طرح عیاں ہے ‘ یعنی عدالتی موشگافیوں کے ذریعے جو حشر اس ملک کے مستقبل کا کیا گیا اس حوالے سے بابا بلھے شاہ نے صدیوں پہلے کہا تھا
جتھے ہون جہاںتھاں
بگلے لان عدالتاں
کات پئے کرن وکالتاں
سب نوں ملن رذالتاں
دل دا شیشہ صاف نئیں ہوندا
اوتھے پھر انصاف نئیں ہوندا
خیرجانے دیں ‘ بات ہو رہی تھی لندن کی ‘ جہاں ایوبی دور کے بعد بھی بہت بار سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی رہیں ‘ان میں خصوصی طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان (چند دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر) ایک میثاق جمہوریت پر بھی دستخط ہوئے ‘ تاہم جن دو بڑی جماعتوں کے درمیان (چھوٹی جماعتیں تو شامل باجہ کے طور ٹٹاں ٹٹاں ٹاں ‘ ٹاں ٹباں ٹاں ٹاں کرکے دل خوش کر رہی تھیں) یہ معاہدہ ہوا تھا وہ اندرون خانہ خود بھی ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہی تھیں کہ اسی معاہدے کی آڑ میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کے لئے جنرل مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور ان کی ملک میں واپس آنے کی راہ ہموار ہو گئی تھی ‘ تاہم بعد میں اس کا فائدہ نون لیگ کے رہنمائوں نے بھی اٹھا لیا تھا۔
ذرا دریا کی تہہ تک بھی پہنچ جانے کی ہمت کر
توپھراے ڈوبنے والے کنارا ہی کنارا ہے
بات ہو رہی تھی ایک بار پھرلندن میں”سیاسی” سرگرمیوں کی ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست کی باگ ڈور ایک”دھتکارے” ہوئے شخص کے ہاتھ میں آچکی ہے اور اب مختلف حلقوں کی جانب سے منت ترلے کرکے ان کومنایا جارہا ہے ‘ ان سے آشیر باد لی جارہی ہے ‘ رعونت سے بھرے ہوئے ایک شخص نے بھی انہیں منانے کے لئے سوار اور پیادے دوڑا رکھے ہیں جو ان سے اپنے رویئے پر ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کر رہا ہے کیونکہ کل جو رویہ لندن میں بیٹھے ہوئے شخص کے ساتھ روا رکھا گیا اور انہیں ملکی سیاست سے باہر کرنے کے لئے جو سازشیں کی گئیں آج لگ بھگ ویسے ہی حالات کا دوسروں کو بھی سامنا ہے ‘ مزے کی بات یہ ہے کہ اندر خانے منت ترلے جارہی ہیں جبکہ سامنے وہی رویہ ہے جسے سیانوں نے گیڈر بھبکی سے تعبیر کیا ہے شنید ہے کہ لندن والے نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ملکی سیاست سے مزید کسی کو باہر کرنے کی پالیسی پر عمل نہیں کیا جائے گا تاہم یہ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے بلکہ اس میں بہت پیچیدگیاں ہیں یعنی بقول ایوب خاور
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
ویسے توصدرمملکت بھی آگے آگئے ہیں اور دو رہنمائوں کو ایک دوسرے ملانے اور معاملات کو سلجھانے کی پیشکش کی ہے تاہم ان کا بیانیہ بھی ایک صدرمملکت(غیرجانبدار) کی طرح نہیں بلکہ وہ ابھی تک صدارتی منصب کے تقاضوں کے علی الرغم ایک سیاسی جماعت کے رکن کی طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور حکومت سے انتخابات کی تاریخ مانگ کر ”جانبداری” کا مظاہرہ کر رہے ہیں
تھے کوچہ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند