مشرقیات

قرض پہ قرض ملنے کی خبریں ہیں اور ساتھ میں پھر وعدہ فردا کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی اک دن۔حکمران تو بہرحال ہمیں سبز باغ دکھا نے کاکام ہی کرتے رہے ہیں ایسے میںپھر قرض اٹھا کراگر وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ بس اب سارے دکھ درد ہمارے دور ہو جائیں گے تو جہاں 75سال سے ڈسے جارہے ہیںوہاں ایک بار پھر اسی سوراخ سے ڈسوانے میں کیا حرج ہے بس یہ یاد رہے کہ ہم اور آپ مومن نہیں رہے دو نہیں دوسو بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے گئے ہیں۔آپ کو یہ تو معلوم ہوہی چکا ہے کہ ولی عہد بہادرنے دوچار ارب ڈالر اپنے پلے سے دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے تو ماسی مصیبتے بھی رام ہو گئی ہے،ماسی توانکل سام کی مرضی بغیر کسی کو ایک دمڑی بھی نہیںدیتی اس لیے ہم جب بھی اس سے قرض لینے میں کامیاب ہوئے ساتھ میں ناکامیوں کی داستان بھی رقم کرتے گئے سود در سود ماسی کو اور انکل سام کی ڈومور کی صدائوں پر لبیک کہتے ہوئے قرض کی رقم سے جام لنڈھاتے رہے ساتھ میں گنگنانا بھی جاری رکھا کہ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی اک دن۔سوال یہ ہے کہ ولی عہد بہادر کو پھر ہم سے کیا کام آن پڑا ہے کہ شاباش میاں کو تھپکی دینے لگے ہیں،مان لیا وہ امت مسلمہ پر بڑے سخی ہیں تاہم آج کی جدید دنیا میں فری لنچ ملتا ہی نہیںہے ،تو جناب اس سوال کا جواب سامنے آنا چاہئے کہ بادشاہ سلامت کے ولی عہد بہادر ہم سے کیا توقعات باندھے ہوئے ہیں؟یہ تو ہماری تاریخ کاحصہ ہے کہ کس طرح بادشاہ سلامت ہمارے ہاں کچھ حلقوں اور سرکار کی بھی فنڈنگ کرتے ہوئے ڈیرھ اینٹ کی مسجدیں کھڑی کرتے رہے خود ولی عہد بہادرنے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ دنیا بھر میں سعودی فنڈنگ سے وہابی نظریات اور شدت پسندی کو فروغ دیا گیا تھا ،اب زمانہ کہیں اس قسم کی شدت پسندی سے آگے نکل گیاہے اور خود ولی عہد بہادر بھی اپنا امیج اصلاح پسند حکمران کے طور پر بنانے کے جتن کر رہے ہیں ،جس اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے کے نعرے ہمارے ہاں بیرونی فنڈنگ کے زور سے لگتے رہے ہیں اب اسی اسرائیل کو عرب شہزادے آگے بڑھ کر گلے لگا رہے ہیں ساتھ ہی ان کی خواہش ہے کہ اسرائیل اپنی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کی بادشاہتوں کو بھی لاحق ہر قسم کے خطرات ختم کرنے میں مدد کرے۔اسی مقصد کے لیے اسرائیل کی آئو بھگت کی جارہی ہے تو سوال یہ ہے کہ اپنے عرب پتی اسرائیل کے اس احسان کا بدلہ کیسے چکائیں گے؟کیا ممکنہ جواب یہ ہے کہ اپنے ممنون احسان یا قرض دار ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قائل کرکے وہ دنیا کی اکلوتی مگر غیر قانونی یہودی ریاست کو قانونی چھتری فراہم کریں گے۔اگر ایسا ہے تو آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل گیا ہے کہ عرب پتی ہم پر اتنی مہربانیوں کی بارش کیوں کر رہے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ایویںرائی کو پہاڑ بنا کر پیش کر گئے ہیں تو قرض کی مے کا جام لنڈھائیں اور اپنی فاقہ مستی کے رنگ لانے کی خوش فہمی میں پڑے رہیں۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس