منبر و محراب اور استاد کی اہمیت

ہر معاشرے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو رہنما کہلاتے ہیں اور ان پر معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داریاں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ویسے تو اسلامی معاشرے میں ہر فرد اصلاح معاشرہ کا ذمہ دار ہے مگر جن لوگوں پر یہ ذمہ داری خصوصی طور پر عاید ہوتی ہے وہ اس معاشرے کے ایسے لوگ ہیں جن میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں، ہمارے مذہبی پیشوا اور عبادت گاہیں معاشرتی معاملات طے کرنے ، تعلیم اور صحت کے پروگرام، امدادی فلاحی سرگرمیوں پر مشتمل سہولیات اور عام معاشرتی مسائل کے حل کے لیے مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں ، لوگوں کی ایک دوسرے کی خبر گیری کرنا، ایک دوسرے کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنا، مریضوں کی عیادت کرنا، محلے اور علاقے سے برائیوں کو ختم کرنے اور نیکیوں کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کرنا، ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے ، عوام کی اخلاقی اور فلاحی تربیت کرنا مذہبی پیشوا کی ذمہ داری ہے۔ وہ ان کاموں کے لیے ایسے رضا کار افراد تیار کریں جو ان کاموں میں دلچسپی لیں اور ان کا منشا رضائے الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہ ہو۔ نادار اور غریب مریضوں کے علاج معالجے کا انتظام کرے، یتیم و بے سہارا بچوں اور بچیوں کی شادی اورجو مالی اعتبار سے پریشان حال ہوں ان کے روز مرہ کے اخراجات کا اہتمام کرے ، قرضہ حسنہ کا بندوبست کرے یعنی بیت المال کا مضبوط نظام ہو، نوجوانوں کی اصلاح کے لیے پروگرامات کا انعقاد کرے، نیکیوں کو معاشرے میں فروغ دینے اور بدی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے عبادت گاہوں کے وضوخانوں کو تالے، نلوں کو لوہے کی پٹیاں اور گلاسوں کو زنجیریں ڈال دی ہیں کہ کوئی چوری نہ کر سکے لیکن اس معاشرے کے افراد کو چوری سے روکنے کے لیے کوئی ترکیب نہیں سوچی۔ منبر و محراب ہمارے پاس ابلاغ و تربیت کا بہترین ذریعہ ہیں جس کے کردار کو محدود کرکے صرف عبادات کے لیے استعمال کیا جانے لگا حالانکہ منبر و محراب اسلامی معاشرے کی اصلاح کے محور ہیں ، اسلامی معاشرے سمیت کسی بھی معاشرے کے بنائو اور بگاڑ میں جس دوسرے فرد کا مرکزی کردار ہے وہ اس معاشرے کا استاد ہے استاد اگر چاہے تو وہ معاشرے کو بدل سکتا ہے ، کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے اس کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے فلسفے کی بنیاد پر اہل مغرب اسلامی معاشرے کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں اور اسلامی معاشرے سے استاد کا احترام اور کردار ختم کیا جا رہا ہے۔استاد کے کردار کو محدود کرنے کے لیے بڑا تکنیکی انداز استعمال کیاجا رہا ہے اور کئی ایک محاذ کھول کر استاد کے مقام کو معاشرے سے ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ، نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کرکے استاد کو وہ کچھ پڑھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا اس معاشرے سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بنا کر اس میں من پسند افراد کے اداروں کو بڑا نام دیا گیا ہے اور ان کے نظام تعلیم کو مستند بنانے کے لیے ان کو مختلف بورڈز کے امتحانات میں اول دوم اور سوم پوزیشنیں دی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کا رجحان اس طرف ہو ،ان اداروں کے اساتذہ کی تربیت مخصوص ادارے کرتے ہیں اور ان کی خاص بنیادوں پر ذہن سازی کی جاتی ہے۔ جو اساتذہ نصاب کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات بھی بچوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو نصاب تک محدود کرنے اور ایک عدد سلیبس دے کر پابند کر دیا جاتا ہے اور ساتھ میں دھمکی دی جاتی ہے کہ اس سے آگے یا پیچھے ہونے کی صورت میں آپ کی نوکری کو خطرہ ہے ، اس طرح استاد کے سر پر تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر تعلیم میں کمرشل ازم نے پوری کردی ہے ایسے افراد کو استاد بنایا جاتا ہے جن کی علمی استعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ، استاد کو خود معلوم نہیں کہ اس کا مقام کیا ہے ؟ کسی بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے خواتین اور بچوں کی تربیت ضروری ہے ، بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ان بچوں اور بچیوں کی صحیح خطوط پر آبیاری کرکے ان کو محب وطن شہری اور عملی مسلمان بنانا استاد کا کام ہے ، استاد اور شاگرد کا رشتہ آفاقی ، قدرتی اور فطری ہے ،مغرب اور ان کے آلہ کار خواہ کتنی بھی کوشش کرلیں لیکن استاد اور شاگرد کے درمیان فطری رشتے کو ختم نہیں کر سکتے۔ ا س کے خلاف ہونے والی ہر سازش خود بخود ناکام ہوگی، مگر ہمارے اساتذہ نے دنیاوی جاہ و جلال، مال و زر ،مراعات اور دیگر دنیاوی سہولیات کو مد نظر رکھ کر اصل کام سے توجہ ہٹا لی ہے۔ اگر استاد نے خود کو پہچانا اور اپنی حیثیت کو سمجھ کر معاشرے کی اصلاح کا کام ایک مرتبہ پھر حقیقی معنوں میں شروع کر دیا تو عین ممکن ہے کہ یہ معاشرہ کچھ عرصے میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔مذہبی پیشوا اور استاد یہ دونوں وہ کردار ہیں جو معاشرے میں کلی طور پر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان کے ساتھ معاشرے کی عقیدت بھی ہوتی ہے ، معاشرہ ان افراد کو غور سے سنتا اور ان کی بات پر توجہ بھی دیتا ہے۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!