نشہ خودی کا چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

وہ بے چارہ سادہ لوح شخص یاد آرہا ہے جس نے گائوں سے شہر آکر میلہ انجوائے کرتے ہوئے اپنی چادر گنوا دی تھی اور واپس گائوں پہنچ کر دوستوں کی محفل میں بس یہی رونا روتا رہتا تھا کہ چھوڑو یار میلہ ویلہ کچھ نہیں تھا ‘ سب تماشا تھا اس کی چادر چوری کرنے کا ‘ لطیفہ بہت پرانا ہے اس لئے اس کی تفصل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ اس کا کچھ کچھ اطلاق تحریک انصاف کے ”بڑے بلکہ بہت بڑے” جلسے میں ہونے والی فریاد پر کیا جا سکتا ہے ‘ جس کے لئے پورا ہاکی گرائونڈ اکھاڑ بلکہ ادھیڑ کر رکھ دیا گیا ہے مگر کسی کو شرم تک نہیں آئی ‘ یہاں پہلے ہی ملک میں کھیلوں کے میدان ناپید ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں اوپر سے جو گزارہ لائق سٹیڈیم کہیں نہ کہیں نظرآتے ہیں انہیں نظر بد کی زد میں لایا جا رہا ہے مگر جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے انہوں نے اس کے لئے تاویلیں بھی دینا شروع کر دی ہیں کہ یہ بہت پرانا سٹروٹرف ویسے بھی تبدیل کیا جانے والا تھا اس لئے اسے اکھاڑ کر کسی اور جگہ لگا کراس کی جگہ نیا نکور آسٹروٹرف بچھانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے حالانکہ ابھی نئے آسٹروٹرف کے لئے مبینہ طور پر ٹینڈر بھی کال نہیں کی گئی ہے بہرحال جو لوگ قومی پرچموں پر پارٹی پرچموں کو اہمیت دیتے ہوئے ملکی پرچم اتارنے کی شرمناک حرکت کر سکتے ہیں ان کے لئے چند کروڑ کے آسٹروٹرف کو اکھاڑنا کونسا مشکل کام ہے جبکہ اس سے پہلے ناروال میں نون لیگ کے دور میں وہاں کے عوام کے لئے سٹیڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو ”بدعنوانی” کے نام پر تہہ و بالا کرکے ”ذمہ دار” کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا اور یہ سوچ سامنے نہ آسکی کہ سٹیڈیم تو ناروال کے عوام کے لئے ہے اس لئے منصوبے کو زمین بوس کرنے اور عوام کو کھیل کے ایک اہم منصوبے سے محروم کرنے کے بجائے اگر ”مبینہ بدعنوان” کی چوری یا ڈاکہ زنی کو بے نقاب کیا جاتا تواسے دلوائی جانے والی سزا پر کسی کو بھی اعتراض نہ ہوتا مگر جولوگ اپنے مختلف منصوبوں کے اندر بدعنوانی کو چھپانے کے لئے عدالتی سٹے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے اس لئے اب سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات وائرل ہو رہی ہیں کہ گزشتہ روز تحریک انصاف کے سربراہ کا جو جلسہ آسٹروٹرف سے محروم سٹیڈیم میں منعقد ہونے پر اٹھنے والے اخراجات چودھری پرویز الٰہی کی سربراہی میں قائم حکومت نے برداشت کئے ہیں جس پر ”باپ کا پیسہ؟” جیسے تبصرے کئے جارہے ہیں خیر اس کا جواب تو ایک سیاسی رہنما کے ذاتی جلسے پر حکومت کے خزانے کے منہ کھول کر پانی کی طرح پیسہ بہانے والے ہی دے سکتے ہیں کہ یہ پیسہ پنجاب کے عوام کا تھا یا کسی کے باپ کا تھا البتہ کالم کے آغاز میں جس میلے کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے ایک پرانے لطیفے کی جانب اشارہ کیاتھا اس حوالے سے عرض کرنا کچھ یوں ہے کہ سارا معاملہ ہی”اقتدار کی چادر” کی مبینہ چوری کا ہے جس کے لئے ایک عرصے سے (جب سے یہ چادر گم ہوئی ہے) بین کیا جارہا ہے اور”چادر” کی دہائی دی جارہی ہے ‘ مگر بقول شاعر وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ‘ وہ اپنی دکان کب کی بڑھا چکے ہیں یہ کہہ کر ہم بھرپائے ‘ نہ ہم ادھر ہیں نہ ادھر ہیں اور سب سے بڑی مشکل بھی یہی ہے کہ ادھرسے طعنہ زنی کے تیر جس رفتار سے داغے جارہے ہیں ان کابھی کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا بلکہ بقول شاعر کے صورتحال کچھ یوں ہے کہ ”ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا” یعنی جتنی سنی کو ان سنی کیا جاہا ہے ”اقتدار کی چادر” چوری ہونے کی چیخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں الزامات ‘دشنام ‘ طعنے اور نہ جانے کیا کیا سامنے آرہا ہے مگر آگے ایک لمبی چپ کی وجہ سے ادھر بے چینی او رپریشانی اتنی ہی بڑھ رہی ہے خوف ہے اس مکافات عمل کا جو پانی میں سرپر تنی ہوئی چھری کی صورت صاف اور واضح دکھائی دے رہی ہے ‘ اس لئے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ”چادر کی چوری” کے حوالے سے واویلا مچانے کے لئے ملک کے کئی شہروں میں ”میلے” منعقد کئے جائیں گے یعنی جلسے کرکے دبائو بڑھایا جائے گا تاکہ وہ جو چادر چوری کی گئی تھی اس کی باز یافت کی کوئی صورت نظر آجائے مگر اب جبکہ اقتدار کی جنت کہیں کھو چکی ہے اس جنگ گم گشتہ کی تلاش کرتے وقت اپنے ماضی پر بھی نظر دوڑا دی جائے تو احساس ہونے میں زیادہ تر دو نہیں کرنی پڑے گی کہ
نشہ خودی کا چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
اب صورتحال اس نہج پر جا پہنچی ہے کہ جب نا اہلی کی تلوار سر پر لہراتی نظر آنے لگی ہے تو ایک جانب جلسوں کے ذریعے دبائو بڑھانے کا ناٹک کھیلا جارہا ہے تو دوسری جانب بعض اطلاعات کے مطابق لندن سے روابط استوار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے شاید کچھ معافی تلافی کی گنجائش نکل آئے گویا بقول شاعر
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں؟
درست کہا ہے کسی نے کہ اقتدار کا نشہ بہت ہی خراب نشہ ہے ‘ اقتدار سے بندہ اتر جاتا ہے مگر نشہ برقرار رہتا ہے ‘ مغل شہنشاہ اورنگزیب نے اپنے والد شاہجہان کو معزول کرکے تخت سے اتارا تو ایک روز خیر خیریت دریافت کرنے پہنچ گیا معزول شہنشاہ سے ان کی کوئی خواہش پوچھی تو انہوں نے کہا ‘ وقت نہیں گزرتا ‘ وقت گزاری کے لئے اگر کچھ بچوں کو بھیج دیا کرو جن کو قرآن حکیم کی تعلیم دے سکوں ‘ اورنگزیب عالمگیر نے استہزائیہ لہجے میں جواب دیا اقتدار بند مٹھی میں سے ریت کی مانند پھسل چکا ہے مگر آپ کے حکم دینے کی عادت نہیں جاتی بچوں کو اس لئے بھیجوں کہ آپ کم ازکم ان پر ہی حکم چلا سکیں ‘ یہ نہیں ہو سکتا ۔ یہ تو اچھا ہے کہ اس زمانے کے ہندوستان میں فلمیں بننا ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں ورنہ کوئی بعید نہیں کہ اورنگزیب عالمگیر اپنے باپ شاہجہان سے ہندوستانی فلم ڈائریکٹر و شال بھردواج کے ایک فلم کایہ ڈائیلاگ بول کر نکل آتا کہ ”میاں پان کھایا کرو پان ‘ منہ بھرا رہتا ہے” خیر جانے دیں اب تو شیخ رشید بھی لندن یاترا کرنے جا پہنچے اور یار لوگ ان کے اس سفر کو کئی معنی پہنا رہے ہیں کچھ اسے فرار قرار دے رہے ہیں اور کچھ اسے گیٹ نمبر چار کی ملازمت”ختم” ہونے کے بعد پرانے رابطے بحال کرکے معافی تلافی کی صورتحال سے جوڑ رہے ہیں ‘ سو دیکھئے اس بحر کی تہہ سے نکلتا کیا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  امریکی پابندی کا استرداد