جشن آزادی اور ہمارے رویے

اس برس جشن آزادی گزشتہ برسوںسے بھی زیادہ برجوش طریقے سے منایا گیا۔بات بھی ایسی تھی کہ اس بار ہم پچھترواں جشن منا رہے ہیں۔چھوٹے بڑے سب کسی نہ کسی طور آزادی کے دن میںانوالو دکھائی دیے ۔ میرے لیے یقینا یہ ایک بے حد خوشی کا موقع تھا۔ میرے نزدیک پاکستان مسائل کا شکار ملک ہونے کے باوجود اس لیے اپنی بقاء قائم کیے ہوئے ہے کہ اس کے باشندے روحانی طور پر زندہ ہیں اور اپنے وطن سے پیار کرتے ہیں ۔جن مسائل کا ہم شکار ہیں یقینا اس میں عوام کا قصور بھی نہیں ۔ ماضی کے صاحب اقتدار لوگوں کی غلط پالیسیوں اور کچھ بین الاقوامی معاملات کی وجہ سے ہم معاشی حوالے شدید بحران کا شکار ہیں ۔بہرحال زندہ قومیں بحرانوں سے نکل ہی آتے ہیں۔ جب گھر کے مکین گھر سے پیارکریں تو اس گھر کی بنیادیں قائم ودائم رہتی ہیں ۔وطنیت اور قومیت پرستی کا جذبہ اگر چہ عوام کے دلوں میں بستاہے لیکن بیرونی سطح پر یہ جذبہ سرحدوں کو استحکام بخشتا ہے ۔ آزادی سے اب تک ہمیں چھوٹی چھوٹی عصبیتوں میں بھٹکایا گیا ہے کہ جس سے تعصبات کا ایک لامتناہی سلسلہ پروان چڑھتا رہا ہے ۔جس کے برے نتائج بھی ہم بھگت چکے ہیں لیکن یہ جشن آزادی بلامبالغہ پاکستانی قومیت کے وجود کا استعارہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کوئی پنجابی نہیں ،کوئی پشتون نہیں ، کوئی سندھی بلوچی نہیں بس سب سبز ہلالی پرچم تلے کھڑے پاکستانی دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ ہم یہ تہوار مناتے کس طرح ہیں ۔آزادی پر کیا موقوف ہم ہرغمی خوشی کو پوری شدت کے ساتھ منانے والے لوگ ہیں ۔ ہم ہفتوں اپنی شادیوں پر ہائی والیوم میں رات گئے اپنے پڑوسیوں کی سماعت کا امتحان لیتے ہیں ۔ ہوائی فائرنگ سے موت کے واقعات بار بار سرزد ہوتے ہیں لیکن عید کاچانددیکھا نہ دیکھاگولیاںاگلتی مشین کا منہ آسمان کی طرف سرکادیتے ہیں۔ظاہر ہے ہم شدتوں کے عادی لوگ ہیں تبھی تو ایکشن سے بھرور چیزیں ہی ہمیں متاثر کرتی ہیں۔ اس برس کے تہوار میں اگر کوئی ”مین آف دی میچ ” کا سزاوار ہوسکتا ہے تو وہ پلاسٹک کا بھونپو ہے جو مسلسل بجتا رہا ہے ۔مجھے ماضی کا ایک گیت یاد آرہاہے کہ گھنگروکی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں ۔ بچوں کے لیے یہ بھونپوکسی نعمت سے کیا کم تھا ۔اس برس کوئی مقام ایسا نہ تھا کہ جہاں بھونپوکی آواز نہ جاتی ہو۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ چائنہ پٹاخوں کی مقدار اس بار کم سے کم پھوڑی گئی ۔مسلہ یہ ہے کہ شور کرنے والے کو محسوس نہیں ہوتا کہ اس کا شور دوسرے پر کتنا برا اثر کرسکتا ہے ۔ ہمارے ایک رفیق نے آزادی کے دن دوستوں کو واٹس ایپ کیا کہ جس میں وہ اپنی گاڑی میںفیملی کے ساتھ کسی مریض کی تیمارداری کے لیے گئے تھے جبکہ سڑک منچلے لڑکوں نے ”آزادی کی خوشی ” میں بلاک کررکھی تھی اور کئی فیملیاں اپنی گاڑیوں میں محبوس ہوکررہ گئی تھیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ جوان اپنی بائیکس کا سلنسر نکال کربائیک دوڑاتے ہیں ۔ مجھے اس کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ بائیک کا سلنسر کے نکال لینے سے کیسے آزادی کا جشن منایا جاسکتا ہے ۔پھر میں سوچتا ہوں کہ ہم نے اپنے جوانوں کو دیا بھی کیا ہے جو وہ اس طرح خوشی نہ منائیں ۔ پشاور ہی کی بات کرلیں تو میرے علم میں نہیں کہ کوئی فیسٹیول منایا گیا ہوجہاں نوجوان جاکر موج مستی کرسکیں ۔ کوئی سپورٹس گالا نہیں کہ جہاں جاکر نوجوان اپنا ”اضافی ” پسینہ نکال سکے ۔ نہ ہی بچوں کے لیے کوئی پارک مختص کیا گیا کہ جہاںجاکر بچے اپنے پھیپھڑوں کی ساری ہوا نکال کرپوری قوت سے بھونپوبجا سکیں ۔ نہ ہی خواتین اور بچیوں کے لیے کوئی مینا بازار مختص کیا ہے کہ جہاںجاکر وہ آزادی کے دیزائن والی مہندی لگاسکیں ،جہاں وہ سبزقمیص اور سفید شلوار اور سبز و سفید چوڑیاں پہن کر سکھیوں کو دکھا سکیں ۔ ایسی حالت میں خواتیں کے لیے گھر ہی بچتے ہیں اور نوجوان گھروں میں قید تو ہو نہیں سکتے سو وہ سڑک پر ہی نکلیں گے اور سڑک پر بائیک اور گاڑی ہی دوڑائی جاسکتی ہے ۔بھونپو ہی بجائے جاسکتے ہیں ، سلنسرنکال کراپنے بائیکس کو ٹرٹراہی سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آزادی کے جشن کا اتنا بڑاایونٹ ہونا ہے تو اس کو آرگنائز طریقے سے کیوں مرتب نہیں کیا جاتا ۔ کیوں عوام کو سہولت نہیں دی جاتی ۔ کیوں ادارے اسے اپناکر ایک خوبصورت حوالہ نہیں دے دیتے ۔ سپورٹس ، کلچر ،ضلعی انتظامیہ وغیرہ مل کر اس ایونٹ کو سڑکوں سے ہٹا کرگراؤنڈ ز اور ہالز تک نہیں لے جاتے۔ مثلا قیوم سپورٹس کمپلیکس ،ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم ، سروسز گراؤنڈ ، بردہ باغ ، شاہی باغ ، طہماس خان فٹبال گراؤنڈ، وزیر باغ ، آرمی سٹیڈیم ،نشتر ہال ، گالف گراؤنڈ ،تاتارا پارک ، باغ ناران اور حیات آباد کے اتوار بازار کا کھلا میدان پشاور کے ایسے مقامات ہیں جہاں آزادی کے جش کے دن اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے ایسے ایونٹس رکھے جاسکتے ہیں جہاں وہ اپنی خوشی کے بھونپوبھی بجا سکتے ہیں اور ساتھ جوبات وہ سڑ ک پر نہیں سیکھ سکتے وہ بھی سکھائی جاسکتی ہے کہ آزادی ہے کیا اور اس کامفہوم کیا ہے ۔ اس نعمت کو کیسے حاصل کیا گیا ہے اور اس آزادی کا نصب العین کیا تھا اور اس آزادی کا تحفظ کیسے کرنا ہے ۔ اس آزادی کی نعمت کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ یادرکھئے اب ہمارے بچے وہ بچے نہیں رہے کہ جو حجروں میں بزرگوں سے تہذیب سیکھتے تھے ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!
مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس

جو مسجد اور مدرسے سے اخلاق سیکھتے تھے ۔ ہمارے بچے اسی فیصدزندگی سوشل میڈیا میں اپنے موبائل فون میں آنکھیں گاڑے جیتے ہیں ۔ تہذیب کیا ہے اور اخلاق کیا ہے وہ بھی اسی موبائل کے گیجڈ سے ہی سیکھتے ہیں ۔تو سوچیے کہ کیاسیکھتے ہوں گے ۔ اب تہوار کے تہوار ہی انہیں اپنی موبائل سے باہر نکلنا ہوتا ہے ۔موبائل سے نکل کر اگر وہ سڑک پر آئے گا تو چیخے گا یا دھاڑے گا۔ سماج کا فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ایک چھت تلے ، ایک وسیع چار دیواری میں اکٹھا کرلے تو شایدوہ جشن پاکستان ، تحریک پاکستان کو سمجھ سکے ورنہ گلیوں محلوں میں بھونپوہی جشن آزادی قرار پائیں گے۔