قرضوں کے بوجھ میں ا ضافہ یا”ریلیف”

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو تین ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کا فیصلہ موخر کرنے اور دس کروڑ ڈالر کا ادھار تیل فراہم کرنے اور آئی ایم کی قرض دینے پر آمادگی کے خط کو”ریلیف” سے کیوں تعبیر کیا جارہاہے اس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے خاص طور پر دس کروڑ ڈالر کا ماہانہ ادھار تیل کی رقم آئندہ حکومت کے لئے مشکلات کا باعث ہو گا جس طرح کی مشکل موجودہ حکومت کوپٹرولیم مصنوعات پر غیر حقیقی سبسڈی دے کر خزانے پر بوجھ بڑھانے کی صورت میں سامنا کرنا پڑا تھا ۔ان تمام معاملات سے قطع نظر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ تشویش کا باعث امر ہے اور پاکستان جس طرح قرضوں میں جکڑتا جارہا ہے قرض کے قسط اور سود کی ادائیگی کے لئے بھی مزید قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022 میں ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات میں 118 کھرب 50 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ ملکی اور بیرونی قرضوں اور واجبات سے متعلق اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 30 جون تک 596 کھرب 96 ارب تک پہنچ چکے تھے جو مالی سال 2021 میں 478 کھرب 44 ارب روپے تھے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2022 میں قرضوں اور واجبات میں سالانہ اعتبار سے 24.8 فیصد بڑھوتری ہوئی۔یہ ساری صورتحال کس قدر تشویش کا باعث امر ہے اسی پر توجہ کی ضرورت ہے ہمارے تئیں قرضوں کے قسط ملنے کی امید پر ڈالر کی قیمت میں کمی اور سٹاک ایکس چینج میں تیزی کوئی زیادہ پر مسرت امر نہیں اس لئے کہ قرض کے زور پر پیدا ہونے والا استحکام وقتی اور کھوکھلا ہوتا ہے ملک کی معیشت استحکام کی جانب اس وقت ہی حقیقی معنوں میں گامزن ہو سکے گی جب پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہو اس کے لئے ملک میں صنعتی ترقی اور پیداوار میں اضافہ درآمدی بل میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ صنعتی ترقی پر توجہ ہی وہ نسخہ ہے جس کا سہارا لیکر خطے کے ممالک اپنی معیشت مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن بجائے اس کے ہم نے آساں اور وقتی راستہ چن کر ملکی معیشت کو مستقل طور پر دلدل میں دھکیلنے ہی کی پالیسی اپنا رکھی ہے آئی ایم ایف کی حالیہ قسط کے حصول میں تو قوم کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیا گیامعاشی بدحالی کی وجہ سے اب ہم اپنے معاشی فیصلے خود نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی ہدایات پر کرنے پر مجبور ہیں توانائی سے لیکر اشیائے ضروریہ تک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ آئی ایمایف ہی کی شرائط پوری کرنے کے لئے کرنا پڑی۔جاری صورتحال اس امر کا متقاضی ہے کہ ملک کو درآمدی منڈی کی بجائے برآمدی معیشت کے طور پر مستحکم کیا جائے صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے تمام تر ممکنہ بلکہ غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے امکانات اور وسائل کا بھر پور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے اگر حقیقی معنوں میں صنعتی ترقی پر توجہ دی جائے اور تمام توجہ صلاحیتوں اور وسائل کو صنعتی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو سالانہ برآمدی نمو میں اضافہ اور ملک میں ہزاروں نئی ملازمتوں اور روزگار وکاروبار کے مواقع میسر آسکتے ہیں ہمیں اس امر کا اب ادراک ہونا چاہئے کہ صرف قرض پر انحصار کرکے کبھی بھی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ قرض معاشی تحرک کے لئے عمل انگیز ہوسکتی ہے مگر اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات کیا ہو گی کہ ہم ادھار لیکر غیر پیداواری شعبوں پر خرچ کرتے آئے ہیں ہمیں دوست ممالک کی طرف سے بلا شبہ ماضی سے لیکر اب تک بڑی معاشی مدد حاصل رہی لیکن بجائے اس کے کہ دستگیری کے اس عمل کو ہم اپنی معاشی اٹھان کے لئے بروئے کار لائیں غیر پیداواری اخراجات پر صرف کرکے تہی دست ہوتے گئے جس کا انجام آج ہمارے سامنے ہے اب آئی ایم ایف قرض دینے کے لئے مزید قرض کا پہلے سے انتظام کرنے کی پیشگی شرط عائد کرتا ہے اور دوست ممالک کی یقین دہانی اور عملی امداد پر ہی قرض دینے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے آخر تابکے؟صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن اس کے باوجود ان کو بروئے کارلا کر حقیقی طورپر استفادے اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے ہماری معدنی اور افرادی قوت اور حدود اربعہ اور دنیا کی پانچویں آبادی جس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ایسے امکانات اور مواقع ہیں جوپاکستان کی معیشت کو ابھارنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں ہمارے پاس صنعتی ترقی کا خاکہ موجود ہے مگر اس میں رنگ بھرنا اور اس سے بھر پور استفادہ کرنا باقی ہے بدقسمتی سے اس اہم منصوبے پر بھی ہماری داخلی سیاست اور حکومتوں کی پرچھائیاں پڑ کر اثرانداز ہو رہی ہیں حالانکہ یہ ایک خالصتاً ترقی و کامیابی کا زینہ ہے جس پر جس قدر جلدی چڑھا جا سکے خود ہمارے ملک کے حق میں بہتر ہو گا سی پیک کا مقصد صرف علاقائی رابطے کا جال بچھانا ہی نہیں بلکہ صنعتی و پیداواری سرگرمیوں کو مضبوط کرنا اور باہم تجارت و روزگار کے مواقع سے استفادہ بھی ہے ۔ اس سلسلے میں اب مزید وقت ضائع کئے بغیر پیشرفت کی ضرورت ہے ۔علاوہ ازیں بھی ہمارے پاس بے پناہ مواقع ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں اپنے داخلی و خارجی پالیسیوں اور معاملات کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے اگر اب بھی اپنی اصلاح اور ملک کوان معاشی حالات سے نکالنے میں خدانخواستہ تاخیر کا مظاہرہ کیاگیا صنعتی ترقی پر توجہ کی بجائے قرضوں پر انحصار ہی کو کافی سمجھا گیا ادھار تیل اور قرضوں کو بوجھ سمجھنے کی بجائے ریلیف قراردینے کی روشن برقرار رکھی گئی تو خدانخواستہ بہت دیر ہو جائے گی اور پھر ہم کبھی بھی اپنی معاشی پستی سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند