سمجھ سمجھ کے بھی جو نا سمجھے

گزشتہ دور میں جو ہمیں بتاتے تھے آئی ایم ایف کا شکنجہ سخت ہوتا جا رہا ہے انہی کی اتحادی حکومت بارے اطلاعات یہ ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام کی بحالی سے قبل ان سخت شرائط پر عمل کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے جن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے نے قرضہ پروگرام کی اقساط رواں سال کے آغاز پر روک لی تھیں۔ ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ پٹرولیم، بجلی اور سوئی گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ مزید اضافے کی تصدیق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت مزید مشکل فیصلے کرے گی۔ اس امر کی بھی وزارت خزانہ کے ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت 150 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کیلئے منی بجٹ لانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ روز ملک کی معاشی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا مشکلات سے نکلنے کے لئے قرضے لینے پڑرہے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد سابق حکومت کو قرضے لینے پر نہ صرف آڑے ہاتھوں لیتا تھا بلکہ ماضی میں اتحادی رہنما یہ کہا کرتے تھے کہ ناتجربہ کار ٹیم نے معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تجربہ کار ٹیم نے 4ماہ میں سدھار کے لئے اب تک کیا کیا؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگلا ہدف مہنگائی کو کنٹرول کرنا قرار پایا ہے تو یہ کیسے ممکن ہوگا۔ پٹرولیم، بجلی اور سوئی گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کی صورت میں ایسا کون سا چراغِ الہ دین معاشی پالیسی سازوں کے پاس ہے جو مہنگائی کو مزید بڑھنے سے روک لے گا؟ جس اہم مسئلہ کو وفاق میں برسراقتدار حکمران اتحاد کے رہنما نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج اضافے کی وجہ سے صارفین پر دو طرح کا بوجھ ہے اولاً بھاری بھرکم یوٹیلٹی بلز اور ثانیا مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ۔ ادویات کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ گو گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے 35 ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی سمری مسترد کردی لیکن کیا حکومت اس امر کا انتظام کرپائے گی کہ یہ 35 ادویات جو کہ گزشتہ 3ماہ سے اولاً تو مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں اور اگر کہیں دستیاب ہیں تو مقررہ نرخوں سے 50 سے 80 فیصد زائد قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں، مقررہ قیمت پر دستیابی اور فروخت کو یقینی بنائے۔ بظاہر ایسا کوئی انتظام دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں اشرافیہ کو ٹیکسوں میں رعایت دینے کے لئے جو 148ارب روپے کی رقم رکھی تھی اس پر نظرثانی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا ارباب اختیار اس بات سے قطعی طور پر لاعلم ہیں کہ ملک میں عام آدمی کی حالت کیا ہے اور یہ کہ صرف پچھلے چار ماہ کے دوران روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا نیز یہ کہ اس اضافے کی وجہ سے عام آدمی کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ایک طرف تو حکومت کے اپنے بعض اتحادی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پٹرولیم کے نرخوں میں حالیہ اضافے کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں دوسری جانب بتایا جا رہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو قرضہ پروگرام کے معاہدہ پر عمل کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ ایسا ہے تو پھر پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے پر اختلاف رائے کا اظہار کرنے والی اتحادی جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کا معاہدہ سابق حکومت نے کیا تھا سابق وزیراعظم عمران خان خود یہ کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے باوجود میں نے معاہدے کی سخت شرائط پر عمل نہیں ہونے دیا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ معاہدے پر عدم عمل کی سنگینی کا ادراک نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی آئی ایم ایف سے قربت رکھنے والے ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے انہیں اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ معاہدہ حکومت پاکستان سے ہوا ہے عملدرآمد لازمی ہے؟ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے معاشی ماہرین ہوں یا سابق و سابقہ حکومتوں کے سبھی اپنے عوام کو کچھ بتاتے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں سے کچھ طے کرکے آتے ہیں۔ اسے بھی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ارباب اختیار اس بات سے لاعلم ہیں یا چشم پوشی کئے ہوئے ہیں کہ حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ محدود ذرائع آمدنی کے مقابلہ میں ناگزیر اخراجات، مثلاً یوٹیلٹی بلز، کرایہ مکان، مہینے بھر کا راشن اور کچھ دوسرے ضروری اخراجات، یہ سب خاندانوں کے بجٹ میں عدم توازن پیدا کررہے ہیں جس سے ایک طرف تو خودکشیوں میں اضافہ ہوا دوسری طرف نفسیاتی بیماریوں میں، اس پر ستم یہ ہے کہ انسانی جان بچانے اور نفسیاتی امراض کے علاج میں معاون بننے والی ادویات بہت مشکل کے ساتھ صرف بلیک میں دستیاب ہیں۔یہاں ہم عوام الناس کا یہ سوال بھی ارباب اختیار کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مشکل معاشی حالات میں اشرافیہ کے طبقات اور خصوصا ارکان اسمبلی، وزراء و مشیر صاحبان اپنی تنخواہوں اور مراعات سے کچھ عرصہ کے لئے دستبردار کیوں نہیں ہوجاتے تاکہ یہ رقم شہریوں کو ریلیف دینے کے کام آئے؟ بہرطور مکرر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ارباب حکومت و سیاست دونوں کو ایسی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی جس سے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا ہوں۔ مہنگائی کم کرنے کا خواب صرف اسی صورت ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب یوٹیلٹی بلز کا بوجھ کم ہو یہ ممکن ہی نہیں کہ حکومت پٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتی چلی جائے اور یہ توقع کرے کہ مہنگائی کم ہوجائے گی۔ اسی طرح پٹرولیم کے نرخوں میں حالیہ اضافے پر اختلافی بیانات دینے والے اتحادی رہنماؤں سے بھی درخواست ہے کہ وہ لیپاپوتی کی بجائے حقیقی معنوں میں ان نرخوں میں کمی بلکہ عالمی منڈی میں تیل کے حالیہ نرخوں کے حساب سے ایڈجسٹمنٹ کو یقینی بنوائیں۔ بعض حکومتی رہنماؤں کا یہ کہنا کہ مہنگے داموں خریدا گیا تیل سستا فروخت نہیں کیا جاسکتا، مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ سستے داموں تیل خرید کر کب عوام کو ریلیف دینے کا حوصلہ کیا گیا؟ الحمدللہ کبھی بھی نہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد