مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں باران رحمت نکاسی آب کے ناقص انتظامات کے باعث زحمت ثابت ہوتی آ رہی ہے، کروڑوں روپے شہرکی واحد مرکزی سڑک کے نکاسی آب کے منصوبے پر خرچ کئے گئے لیکن ناقص منصوبہ بندی کے باعث ہر بار رقم ضائع اور مزید اقدامات کی ضرورت پڑ جاتی ہے، یونیورسٹی روڈ کے مرکزی تجارتی حصے میں بار بار کھدائی اور نالے کی تعمیر کے باوجود اس مسئلے کا حل طلب رہنا سمجھ سے بالاتر ہے، گزشتہ روزکی بارش کی شدت بہت زیادہ تو نہ تھی لیکن سڑک تالاب کا منظر پیش کرنے لگی، علاوہ ازیں ورسک روڈ، جی ٹی روڈ، سرکلر روڈ، رنگ روڈ، چارسدہ روڈ اور خیبرروڈ سمیت صوبائی اسمبلی کے قریب رحمان بابا چوک اور پشاورکی سبزی منڈی سمیت مختلف مقامات زیر آب آ گئے، مختلف مقامات پر پانی عمارتوں کے تہہ خانوں میں داخل ہوا۔ بارش میں حسب معمول بجلی غائب ہو گئی، بارشوں کے دنوں میں اب یہ صورتحال معمول بن گئی ہے، ہر بار شہروں کو ایک طرح کی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن کسی بھی دور حکومت میں عوام کو ان مسائل سے نکالنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی یا ماہرین کی مشاورت اور تعاون سے کوئی ایسا منصوبہ سامنے نہیں لایا جاسکا جس سے کم از کم شہر کی واحد مرکزی سڑک کا تو نکاسی آب کا مسئلہ حل ہو جائے، صوبے کی موجودہ حکومت گزشتہ حکومت کا تسلسل ہے تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں بی آر ٹی منصوبہ شروع ہوا جس کے بعد سے مسلسل چلے آنے والا یہ مسئلہ سنگین تر ہوا اور نو سالہ حکومت بھی اس مسئلے کا مستقل حل نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ یاد رہے کہ بی آر ٹی کوریڈور کی تعمیر کے دوران اس مرکزی سڑک کو تہہ و بالا کیا گیا اگر نکاسی آب کے سنگین مسئلے پر بروقت توجہ دی جاتی اور جگہ جگہ پائپ ڈال کر سڑک کے دونوں اطراف کے نشیبی اور پانی جمع ہونے کے مقامات کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی زحمت کی جاتی تو آج یہ صورتحال درپیش نہ ہوتی، بعد میں ایک دو بار کوریڈور کی سڑک کاٹ کر تجربہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بدقسمتی سے وہ بھی ناکام رہا، بی آر ٹی کوریڈور میں اگرچہ بسیں چل پاتی ہیں لیکن پانی جمع ہوکر بسوں کے اندر چلے جانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے، ایک آدھ مرتبہ اس کی نوبت آ بھی گئی تھی جبکہ بی آر ٹی کوریڈور کے انڈر پاسز میں پانی کی نکاسی کا بروقت انتظام نہ ہونے کے باعث پانی جمع ہو جاتا ہے، یہ مسئلہ بھی قابل توجہ ہے، اس سے احتراز شتر مرغ کے ریت میں سر دینے کے مترادف ہے جس کی گنجائش نہیں۔ پشاور کے مرکزی علاقے کے علاوہ بھی محولہ مقامات پر پانی جمع ہونے سے علاقے ڈوب جاتے ہیں، نشیبی آبادی اور خاص طور پر ندی نالوں میں تجاوزات کے باعث سیلابی پانی کے آبادی میں داخل ہونے اور کسی بڑے نقصان کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے، صوبائی دارالحکومت کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے سیلابی پانی میں ڈوب جانے کا واقعہ زیادہ پرانی بات نہیں جس کے باوجود ندی نالوں کی صفائی اور ان میں قائم تجاوزات کو ہٹانے کے وعدوں اور دعوؤں پر ہنوز عمل درآمد باقی ہے ان تمام امور کے جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ یہ مسئلہ حکومت کی ترجیحات کا شاید حصہ ہی نہ ہو اور نہ ہی سرکاری اداروں میں بیٹھے نااہل انجینئرز اور منصوبہ ساز اس مسئلے کا حل نکالنے کی اہلیت رکھتے ہیں، رحمان بابا چوک اور یونیورسٹی روڈ کو خاص طور پر ہر وقت تختہ مشق بنتا دیکھا جا سکتا ہے کہ کروڑوں روپے تعمیر و تخریب کی نذر ہو جاتے ہیں لیکن ذرا سی تیز بارش ناکامی کا طوق حکمرانوں، حکام اور منصوبہ سازوں کے گلے میں ڈال جاتی ہے جس کے بعد نئے سر سے مجلس جمتی ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، آخر یہ صورتحال کب تک رہے گی عوا م کے ٹیکس کی رقم کا ضیاع کب تک ہوتا رہے گا کوئی ایک بارکا ٹھوس منصوبہ کب بنے گا کہ اس پر عملدرآمد کے بعد عوام سکھ کا سانس لے سکیں، پشاور میں نکاسی آب کا قدیم انتظام اور سیلابی و نکاسی گزرگاہ شاہی کٹھہ تجاوزات کے باعث اب سکڑ چکا ہے جس کی وجہ سے سیلابی بارشوں کے پانی گزرنے کی راہ تنگ اور مسدود ہو چکی ہے اس کی صفائی نہ ہونے کے باعث رہی سہی کسر ملبے اور غلاظت کے ڈھیروں سے پوری ہو جاتی ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ نکاسی آب کے مسئلے کے حل کیلئے تاریخی شاہی کٹھہ کی بحالی کا منصوبہ بھی بدقسمتی سے کاغذات ہی میں گم ہے، ضروری کارروائی کی بھی تکمیل کی شنید ہے لیکن عمدرآمد کیلئے دیگر انتظامات کی غرض سے صوبائی حکومت کی جانب سے 30 کروڑ روپے کی منظوری بھی ہو چکی ہے اور رقم منظور ہوئے سال گزر گیا مگر پیشرفت کے ہنوز کوئی آثار نہیں، معلوم نہیں مزید کتنا وقت صرف ہوگا اور اس دوران خدانخواستہ کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی تو شہریوں کی جان و مال اور املاک کو کیسے بچایا جائے گا؟ شہر میں بارشوں میں بلدیاتی عملہ اور ٹریفک پولیس مقدور بھر متحرک ضرور نظر آتی ہے لیکن تہی دست عملہ اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت اور درکار تکنیکی سامان اور انتظامات سے محرومی کے باعث دیواروں سے سر ٹکرانے کے مترادف تحرک کا مظاہرہ ہی کر پاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ارباب اختیار وزیر اعلیٰ سے لیکر میئر پشاور تک، شہری ترقیاتی اداروں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ عمائدین شہر کو بھی شریک کرکے ایک اعلیٰ سطح مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا جائے اور فیلڈ میں کام کرنے والے عملے، ٹریفک پولیس کے موقع پر کام کرنے اور جائزہ لینے والے اہلکاروں سے بھی رائے لی جائے اور مسئلے کا اعلیٰ سطح جائزہ موجودہ ناکام منصوبہ بندی کرنے والے عاملین کی بجائے کسی مشاورتی فرم سے منصوبہ تیار کروا کر کمیشن اور ٹھیکیدار سے ملی بھگت کے امکانات کا تدارک کرنے کے ساتھ منصوبہ ڈیزائن کے مطابق معیاری طریقے سے مکمل کرایا جائے تو شاید شہریوں کو اس سیلاب کی بلا سے نجات ملے اور ان کی مشکلات دور ہوں۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو