غصہ کے مقابلہ میں غصہ تباہی کا باعث

ایک استاد ریاضی کی کتاب پڑھاتا تھا اس نے دیکھا کہ کچھ طالب علم سست ہیں، ایک دن یہ استاد کلاس میں داخل ہوا جیسے ہی اپنی کرسی پر بیٹھا اچانک کہنے لگا ہر طالب اپنی اپنی کتاب بیگ میں ڈال لے اور قلم و کاغذ نکال لے یعنی امتحان لینا چاہتا ہوں۔

طالب علموں نے کہا استاد جی کیوں؟
استاد نے کہا : میں امتحان لینا چاہتا ہوں اب طالبوں نے اظہار افسوس کے ساتھ کاغذ قلم لیے اور ایک دوسرے کو کانا پھوسی کرنے لگے۔
ایک طالب علم بڑا لڑائی جھگڑا کرنے والا تھا چلا کر کہنے لگا:اے استاد ہم امتحان نہیں دینا چاہتے۔
جب ہم یاد کر کے آتے ہیں تو بھی مشکل سے جواب دیتے ہیں، جب ہم نے یاد نہیں کیا تو کیسے سوالات کے جواب لکھیں گے؟
طالب نے جب غصے میں آ کر ایسے کہا تو استاد کو بھی غصہ آیا کہ یہ میرے ساتھ بدتمیزی سے بات کر رہا ہے تو استاد نے کہا تمہاری مرضی نہیں چلے گی تمہیں زبردستی امتحان دینا پڑے گا سمجھا؟…..اگر امتحان نہیں دینا تو کلاس سے باہر نکل جا۔
طالب علم مقابلہ کرنے لگا پھر چلا کر استاد کو کہا تو باہر نکل جا۔
استاد اس طالب کی طرف چلا وہ طالب اپنی کرسی سے لڑنے کے لئے کھڑا ہو گیا استاد اس کی طرف جاتے ہوئے چلاتا گیا تم بدتمیز ہو تمہیں کوئی تمیز نہیں تمہاری کسی نے تربیت نہیں کی حتیٰ کہ استاد طالب کے پاس پہنچا تو وہی ہوا جو ہم نہیں چاہتے….آگے مت پوچھو کیا ہوا.
بہر حال یہ بات ہیڈ ماسٹر تک پہنچ گئی اور اس طالب علم کو سزا دی گئی، مگر یہ استاد ہر کسی کی زبان پر آ گیا کہ استاد کے ساتھ ایسا ہوا جب سکول کی گلی سے گزرتا طالب ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرنے لگ جاتے حتیٰ کہ اس استاد کا دوسرے سکول میں تبادلہ ہو گیا۔

ایسے ایک دوسرے استاد کے ساتھ ہوا مگر یہ استاد مہارت سے کام لیتا تھا یہ استاد بھی جب کلاس میں داخل ہوا اچانک کہنے لگا قلم و کاغذ نکالو امتحان کا وقت ہے، اس کلاس میں بھی ایک اس جیسا طالب علم تھا
چلا کر کہنے لگا:تیری مرضی نہیں چلے گی مگر یہ استاد پہاڑ جیسا تھا یہ سمجھتا تھا کہ غصہ والے کے ساتھ غصہ میں آکر مقابلہ نہیں کرنا چاہئے
طالب علم کے کہنے پر استاد ہنس پڑا اور اس طالب علم کی طرف دیکھ کر کہنے لگا اے محمد تو امتحان نہیں دینا چاہتا؟
محمد نے چلا کر کہا:نہیں
استاد نے بہت ٹھنڈے مزاج سے کہا:کوئی بات نہیں جو امتحان نہیں دینا چاہتا اس کے ساتھ اور معاملہ رکھیں گے یہ کہہ کر استاد نے بلیک بورڈ پر امتحان کے سوالات لکھنے شروع کر دیئے، اس طالب علم سے صبر نہ ہوا پھر چلا کر کہا میں نے نہیں کہا کہ میں امتحان نہیں دینا چاہتا۔
استاد اس طالب علم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور لطف بھرے انداز میں کہنے لگا میں نے تم پر زبردستی تو نہیں کی کہ امتحان دو تم اپنے طریقے و اصول کے خود ذمہ دار ہو۔
اس طالب علم کو کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے پھر استاد کے ساتھ غصہ کرے اور بدتمیزی کرے، آخر کار یہ طالب علم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح قلم و کاغذ نکال کر سوالات لکھنے لگا۔

مزید پڑھیں:  عمرہ زائرین کو مقررہ 3 ماہ کے اندر اپنے وطن لوٹنا ہوگا، اعلامیہ جاری

اب دیکھو واقعہ ایک جیسا تھا مگر معاملہ مختلف تھا، اس لئے غصہ کا مقابلہ غصہ میں آ کر نہیں کرنا چاہئے عقلمندوں کا کہنا ہے کہ جو آگ سے آگ کا مقابلہ کرے گا تو آگ بڑھے گی اور اس کے برعکس لوگ ٹھنڈے مزاج والے سے بھی ٹھنڈے مزاج سے پیش آتے ہیں جس سے کام ٹھیک نہیں چلتا تو آپ اپنا اصول حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جیسا اپنائیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کیسے آپ نے چالیس سال حکومت کی ہے؟….حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں لوگوں کے ساتھ اس چیز کو مد نظر رکھ کر معاملہ کرتا تھا جیسا کہ میرے اور لوگوں کے درمیان ایک بال ہے بال کا ایک سرا میرے ہاتھ میں ہے اور دوسرا لوگوں کے ہاتھ میں ہے جب لوگ بال اپنی طرف کھینچتے ہیں تو میں اپنی طرف سے ڈھیلا کر دیتا ہوں تاکہ بال ٹوٹ نہ جائے جب لوگ ڈھیلا کرتے ہیں تو میں کھینچتا ہوں۔

اللہ اکبر سچ کہا کتنے حکیم تھے۔ زندگی میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اصول کی طرح ہیں بدل نہیں سکتیں مثلاً میاں بیوی اگر دونوں سخت مزاج ہیں تو کبھی زندگی نہ گزار سکیں گے ایسے بادشاہ و خادم….مال دار اور نوکر……
میں ایک بار جیل میں وعظ کرنے گیا قدرتی بات ہے کہ میرا وعظ جیل کے اس حصہ میں ہوا جہاں قتل کے جرم میں گرفتار قیدی رکھے گئے، جب میں نے وعظ ختم کیا تو ہر آدمی اپنی اپنی جگہ چلا گیا صرف ایک شخص آیا اپنا تعارف کرایا، اور وعظ کا شکریہ ادا کیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اکثر طور پر یہاں قاتل نے کس وجہ سے قتل کیا ہوتا ہے؟…..اس نے کہا ان میں سے اکثر نے قتل غصہ کی وجہ سے کیا ہے، اللہ کی قسم! شیخ صاحب بعض نے تو کچھ تھوڑے سے پیسوں کی وجہ سے قتل کیا ہے کہ دکاندار کے ساتھ، یا پٹرول پمپ کے نوکر کے ساتھ جھگڑا ہوا اور اس کو قتل کر دیا۔اس کی بات سے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آیا کہ بہادر وہ نہیں جو اپنی بہادری سے دوسروں کو بے ہوش کر دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے میں اپنے آپ کو قابو رکھے جی بہادر وہ نہیں جو صحت مند ہو اور لوگوں کے ساتھ پہلوانی کرے اور انہیں مغلوب کر دے….نہیں….اگر ایسے ہوتا تو کئی جانور بھی انسان سے زیادہ طاقت ور ہیں بلکہ بہادر اور عقلمند وہ ہے جس کو پتہ ہو کہ ہر واقعہ پر کس مہارت سے معاملہ کرنا ہے اس مہارت سے اپنی بیوی بچے، دوست سب کے ساتھ اچھا معاملہ کرتا ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاضی کو منع کیا کہ غصہ کے وقت فیصلہ نہیں کرنا اور آپ نے اپنے نفس کو نرمی پر لانے کی ترغیب دی ہے۔

مزید پڑھیں:  عمرہ زائرین کو مقررہ 3 ماہ کے اندر اپنے وطن لوٹنا ہوگا، اعلامیہ جاری

حدیث میں مروی ہے نرمی، نرمی اپنانے سے آتی ہے جی نرمی اپنانے سے نرمی آتی ہے یعنی اگر فرض کے طور پر آپ پہلی مرتبہ جب غصہ ختم کرنے کی کوشش کریں گے تو۱۰۰فیصد آپ کو مشکل محسوس ہوگی، اگر دوسری مرتبہ کوشش کریں گے تو۹۰ فیصد مشکل ہو گی، پھر تیسری مرتبہ اگر کوشش کریں گے تو۸۰ فیصد مشکل محسوس ہوگی،اس طرح آہستہ آہستہ یہ مشکل ختم ہوتی چلی جائے گی حتیٰ کہ نرمی آپ کی ایک صفت و طبیعت بن جائے گی۔

ایک دلچسپ واقعہ مجھے یاد آیا ہے کہ ایک نوجوان بہت غصہ والا تھا یہ نوجوان ایک مرتبہ اپنی گاڑی پر سفر میں نکلا ہوا تھا، اس نوجوان کو کوئی جلدی نہیں تھی تو یہ سفر کے دوران بہت آرام سے گاڑی چلا رہا تھا، اس نوجوان کی گاڑی کے پیچھے ایک گاڑی بہت تیزی سے آ رہی تھی، پچھلی گاڑی والوں نے بہت ہارن دیئے تو اس نوجوان نے الٹا اپنی گاڑی کی رفتار اور آہستہ کر لی، اور شیشے سے اشارہ کر کے کہنے لگا آہستہ چلو….آہستہ چلو۔

پیچھے والی گاڑی کا ڈرائیور تنگ ہوکر زیادہ تیزی سے آکر آگے والی گاڑی کو پار کر گیا یہ نوجوان چونکہ غصہ اور گرم زاج والا تھا اس نے بھی رفتار زیادہ کی اور چیختا چلاتا ہوا اس گاڑی کے پیچھے گیا، جب گاڑی کے قریب پہنچا ان کو اشارہ کیا کہ رک جائو، یہ بھی رک گیا اس نے اپنی گاڑی سے ٹائر کھولنے والا لوہا ہاتھ میں لیا اور اس گاڑی کی طرف پیدل چلنے لگا، غصے سے بھرا ہوا، آنکھیں لال سرخ تھیں،اچانک دوسری گاڑی والوں نے دروازہ کھولا اس گاڑی سے تین نوجوان اترے….یہ ان کی طرف غصہ سے دیکھ رہا ہے وہ اس کی طرف گھور کے دیکھ رہے ہیں اور کبھی جو اس کے ہاتھ میں لوہا تھا اس کی طرف دیکھتے، ان تینوں کے ہاتھ پھولنے لگے لڑائی کیلئے بازو اوپر چڑھائے اور اس نوجوان کی طرف چلے وہ بھی چلا آ رہا تھا، اس نوجوان نے جب ان تینوں کی حالت دیکھی تو ڈر کے مارے اپنے منہ میں زبان سے لعاب کا قطرہ ڈھونڈنے لگا اور اس پر خوف طاری ہو گیا کہ یہ تو تین ہیں میں اکیلا ہوں، اس نوجوان نے دیکھا کہ ان کی نظر لوہے پر ہے تو دور سے لوہے کو اوپر کیا اور کہنے لگا، بھائی میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا تھا کہ یہ لوہا آپ کی گاڑی میں سے گر گیا تھا ان تینوں میں سے ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر لوہا ہاتھ میں لیا اور واپس اپنی گاڑی میں لوٹ آئے یہ نوجوان ان کی طرف دیکھ کر بائے بائے کرتا رہا۔