ناگوار لمحات پر پریشان نہ ہوں 

ناگوار لمحات پر پریشان نہ ہوں یہ خدا کی طرف سے ہیں

ابو حازم قاضی فرماتے ہیں احمد نے مجھ سے اپنے ملک شام کی طرف کوچ کرنے کا قصہ یوں بیان کیا:

امیر المؤ منین متوکل باللہ اپنے وزراء کے ہم راہ سامراء کے قریب ایک جگہ ’’ محمدیہ‘‘ کی سیر و تفریح کے لیے نکلا۔ دیوان نویسوں نے تنہائی میں لے جا کر امیر المؤمنین سے میرے خلاف سازش کی اور اس سے میرا ملک شام کی طرف جانے کا فیصلہ کروایا،مجھے قطعاً اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ پھر انہوں نے مجھے بلا بھیجا، میں حاضر ہوا تو وہ سب وہاں موجود تھے۔

موسیٰ مجھ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا:
کچھ ایسی وجوہات بن گئی ہیں جن کی وجہ سے امیر المؤمنین نے حکم دیا ہے کہ آپ یہ شہر فی الفور چھوڑ کر مقام’’رقہ‘‘ چلے جائیں، اب آپ بتلائیں کہ زادِ سفر میںکتنا خرچ درکار ہوگا؟

میں نے عرض کیا:’’جہاں تک کوچ کرنے کا حکم ہے تو ظاہر ہے کہ امیر المؤمنین کی اطاعت اور فرماں برداری ناگزیر ہے، لہٰذا دل و جان سے منظور ہے۔ البتہ جہاں تک خرچے کی بات ہے تو کم از کم تیس ہزار درہم ہونے چاہئیں۔‘‘
تیس ہزار درہم مجھے دے دیئے گئے اور کہا گیا کہ ابھی ابھی ہی تیاری کرو اور جلد از جلد یہاں سے کوچ کرو!
احمد: ’’میںامیر المؤ منین کو آخری الوداع کرنا چاہتا ہوں، اس کی اجازت مرحمت فرما دیں!‘‘
وہ سب یک زبان ہو کر بولے:’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
احمد:’’میں اپنا معاملہ خود نمٹا لوں گا۔‘‘
کہنے لگے: ’’یہ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
موسیٰ مجھ سے پس و پیش کرنے لگا:
بادشاہ تم سے سخت ناراض ہے، بہتری اسی میں ہے کہ خاموشی سے کوچ کر لو اور مخالفت چھوڑ دو۔ بادشاہ جب کسی پر ناراض ہو جائے تو اس شخص کے لیے اس سے اچھی اورکوئی بات نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنا کام مکمل کر لینے کے بعد دوبارہ پھر بادشاہ سے کسی بھی سلسلے میں ملاقات نہ کرے اور اسے یہ جان لینا چاہئے کہ بادشاہ سے دوری میں ہی اس کی بھلائی اور بہتری ہے۔‘‘
درحقیقت وہ ایک دوستانہ انداز میں مجھے بچانا چاہتا تھا کہ میں کسی مصیبت میں نہ گرفتار ہو جائوں۔میں نے اس کی بات قبول کر لی کہ’’ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ ہی مجھے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی مہربان ہے۔‘‘

مجھے ایک جماعت کے حوالے کر دیا گیا،ان کے ہم راہ نہ چاہتے ہوئے میں نے شہر کو بھی چھوڑ دیا۔ حالانکہ قید ہو جانا میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر تھا،لیکن وہ لوگ مجھے جانے پر ہی اکساتے رہے اور اس طرح مجھے شہر چھوڑنا پڑا۔
رات کے اندھیرے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور اسی دورانیے میں’’رقہ‘‘ کے نزدیک پہنچا۔اس میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اچانک ایک دیہاتی کا سامنا ہواجو اپنے اونٹوں کو مترنم اشعار پڑھتا ہوا لے کر جا رہا تھا۔ وہ مجھ سے کچھ ہی فاصلے پرمستانہ انداز میں دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی دھن میں قصیدہ پڑھتا ہوا جا رہا تھا۔ تھا تو وہ دیہاتی، لیکن اشعار انتہائی نفیس اور نصیحت آمیز پڑھ رہا تھا جو اس کے اعلیٰ ذوق کی عکاسی کر رہے تھے۔
شہر چھوٹنے کا غم اب تک مجھ سے چمٹا ہوا تھا، اس دیہاتی نے غم ہلکا کرنے کا کچھ سامنا مہیا کر دیا۔ میں اشعار غور سے سننے لگا جو بہت ہی قیمتی اور آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل تھے۔ اس نے اس دوران میں ایک ایسا شعر پڑھا جس نے یکایک میرے دماغ کی ساری تھکن دور کر کے میری روح کو خوشبوئوں سے مہکا دیا۔ دل کے سارے صدمے دور کر کے ایسا حوصلہ دیا کہ غموں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔
واہ میرے مولیٰ واہ! تو کسی کو سکون پہنچانا چاہے تو ایک ان پڑھ دیہاتی کے چند بولوں سے بھی پہنچا دیتا ہے، تیری قدرت کے کیا کہنے!
وہ اپنے خیالوں میں گم یہ شعر پڑھتا ہوا جا رہا تھا،جس کا مطلب یہ ہے:
’’اے دوست! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناگواریاں تجھے چاروں طرف سے ڈھانپ لیتی ہیں۔ تو انہیں نا پسند کرتا ہے، حالانکہ وہ تو تیرے رب نے تیرے لیے پسند کی ہیں۔‘‘
احمد کہتے ہیں: ’’وہ یہ شعر مسلسل پڑھتا رہا،یہاں تک کہ مجھے یاد ہو گیا۔میں نے اس سے برکت کا فال لیا کہ شاید یہ مجھے آئندہ کے لیے کسی راحت، برکت اور فرحت کی خبر دے رہا ہے،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
’’رقہ‘‘ میں چند دن بھی نہیں گزرے تھے کہ امیر المؤمنین کا والا نامہ میرے نام پہنچ گیا، جس میں درج تھا:’’فی الفور’’رقہ‘‘ چھوڑ کر اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے ملک شام واپس آ جائو!‘‘
ابو حازم قاضی کہتے ہیں:’’احمد اس بات کا خوب تذکرہ کیا کرتے تھے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، بہت ہی بڑی بات تھی کہ بادشاہ خود بلا کر مجھے اپنا حصہ وصول کرنے کی دعوت دے رہا تھا اور وہ بھی اسے جسے کچھ روز پہلے ہی ناراض ہو کر شہر بدر ہونے کا حکم دیا تھا۔ مامون کو اپنے حصے کی وصولی کیلئے خوب تگ و دو کرنی پڑی کہ اسے بھی اس کا حصہ دیا جائے،اسے تو اپنا حصہ مانگنا پڑا اور مجھے محض اہل جانتے ہوئے بغیر مطالبے کے بادشاہ نے انتہائی شاہی اعزاز کے ساتھ بلوا کر ایک لاکھ درہم سے نوازا۔

خوشی خوشی میں نے’’رقہ‘‘ چھوڑا اور ملک شام کی طرف روانہ ہوا۔
الحمدللہ! میں نے اپنی چاہت کی ہر ہر چیز دیکھی۔ سارا عراق بھی اگر اب مجھ پر خرچ کر دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ وطن نہ چھوڑو!تو میرا دل اس بات کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ بے شک تمام تعریفیں اس مولائے کریم کیلئے ہیں جو مایوس انسانوں کو امید کی راہیں بھی دکھاتا ہے اور پھر تنگیوں سے نکال کر فراخی اور کشادگی کی روشنی بھی مہیا کرتا ہے۔