متاثرین سیلاب اور سیاسی قیادت کا طرزعمل

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے الیکشن کے حوالے سے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ عام انتخابات 2023ء ہی میں ہوں گے یہ وقت انتخابات کے مطالبے کا نہیں بلکہ سیلاب زدگان کی مدد کا ہے ۔ ملک میں قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ پہلے سابق اپوزیشن اور موجودہ حکومت میں شامل کا رہا ہے البتہ حکومت کی تبدیلی کے بعد اب نہ صرف عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے بلکہ بعض عناصر اس امر کا امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور ملک کے خالی خزانہ کو جواز بنا کر عام انتخابات کو مقررہ وقت سے بھی آگے لے جانے کی سوچ پائی جاتی ہے اس عمل کو بعض اہم تقرریوں سے بھی جوڑا جاتا ہے بہرحال معروضی صورتحال میں یہ ممکن نہیں بلکہ پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لئے دبائو بڑھ رہا ہے اور مقررہ وقت پر تو بہرحال انتخابات کا انعقاد کرانا ہی ہو گا اگر جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف الیکشن کے مطالبے کے باوجود خود بھی انتخابات قبل ازوقت کرانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی بلاشبہ تحریک انصاف مرکز میں حکومت سے محروم ہوچکی ہے اور پنجاب کی حکومت ایک مرتبہ پھر خطرے میں ہے اس کے باوجود اس وقت بہرحال پنجاب ‘ خیبر پختونخوا ‘گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی حکمران ہے ۔ تحریک انصاف اگران حکومتوں کی قربانی دینے میں سنجیدہ ہو جائے اور یہاں کی اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو یقینا الیکشن کے لئے دبائو بڑھے گا جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوںسے وہ پہلے ہی نیم مستعفی ہے اس تناظر میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ سنجیدہ نہیں بلکہ سیاسی مطالبہ اور دبائو بڑھانے کا حربہ ہی نظر آتا ہے جہاں تک ملکی حالات کا سوال ہے اس وقت ملک کو انتخابات سے کہیں زیادہ یہاں کے عوام کی خدمت اور مدد کی ضرورت ہے جس میں پوری قوم اور بین الاقوامی برادری سبھی اپنے حصے کی بھر پور مدد کرکے ہی انسانیت کو المیہ سے نکال سکتی ہیںدیکھا جائے تو اس وقت پاکستان بڑے پیمانے پرتباہی کا شکار ہے سیلاب نے کمزور معیشت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلابوں سے بڑے پیمانے پر رونما ہونے والے انسانی المیے کے ساتھ ساتھ پہلے ہی اقتصادی مشکلات کے شکار ملک کو تقریباً 10 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان ہوا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد اور بحالی کے کاموں کے لئے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی تنظیموں’ مالیاتی اداروں اور ممالک نے امداد مہیا کرنے کے وعدے کئے ہیں۔بڑی سیاسی جماعتوں کا متاثرین سیلاب کے حوالے سے کارکردگی قابل ذکر نہیں۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے دو امدادی پروگراموں میں ملا کر کوئی دس ارب روپے کی امداد کا وعدہ کیا گیا لیکن برسر زمین کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔دس ارب روپے معمولی رقم نہیں ہوتی اس کا جب استعمال ہوگا اور امدادی کام کا عملی طور پر آغاز ہوجائے تو بچشم خود ملاحظہ ہو سکتا ہے کہ کہاں کہاں کن کن لوگوں کو کس قسم کی امداد ملی اور ان کی بحالی کا کام ہوا ہمارے تئیں یہ وقت سیاست سے ہٹ کر عوام کی دستگیری اور خدمت کا ہے اس وقت اہل وطن مشکل کی گھڑی سے گزررہے ہیں اس وقت جو لوگ بھی ان کی دستگیری کریں گے عوام ان کے خلوص کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی تین بڑی جماعتیں بشمول تحریک انصاف سیلاب زدگان کی مدد میں کوئی کردارادا نہیں کر رہی ہیں ان کے مقابلے میں کم تعداد اور ایک تو بہت ہی کم تعداد اور حمایت رکھنے کے باوجود دینی پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کا کردار وعمل قابل مثال اور واضح ہے لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ ان تک کن رضا کاروں نے رسائی کی ان کی دستگیری و مدد کی اور پورے خلوص سے بلا امتیاز رنگ ونسل و مذہب اور سیاست سے بالاتر ہوکر کس سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیموں اور دیگر فلاحی تنظیموں نے ایک لفظ کہے بغیر اور بغیر کسی ستائش کی تمنا کے عوام کے دکھ درد میں شریک ہوئے یہ درست ہے کہ بعض دینی سیاسی جماعتوں کی ذیلی فلاحی تنظیمیں ہیں لیکن امداد کی تقسیم میں سوائے معمولی شناخت کے علاوہ ان کا کوئی سیاسی مقصد ظاہر نہیں اس طرح کی تنظیمیں ہی قابل تقلید اور مشعل راہ ہیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اس طرح کے فلاحی کاموں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اپنی جماعتوں کی وساطت سے اس طرح کی ذیلی فلاحی رفاعی تنظیمیں قائم کرکے ان کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے جو بوقت مشکل وقت حکومت سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مشکل کا شکار انسانیت کی مدد کریں ایسا کرنے کی بجائے اقتدار و انتخابات کا جھگڑا جاری رکھنا ان مشکلات کا شکار افراد کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے جس سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں خود کو بری ا لذمہ قرار نہیں دے سکتیں بلکہ وہ اس عمل کی ذمہ دار ہیں کہ جب عوام کوان کی ہمدردی اور مدد کی ضرورت ہے وہ اقتدار کے جھمیلوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت تواس امر کی ہے کہ قومی حکومت قائم کرکے سبھی کو مل جل کر ملک و قوم کو ان حالات سے نکالا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو کم از کم اقتدار کی لڑائی ہی کو موقوف کیا جائے اور تمام تر توانائیاں سیلاب زدگان کی مدد و بحالی پر صرف کی جائیں۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں