نذیر تبسم کی شاعری ‘ عصری آشوب

استعارہ ہیں کسی شہر خموشاں کا نذیر
یہ مراشہر پشاور’ مرے مرتے ہوئے لوگ
ڈاکٹر نذیر تبسم پشاور کی ادبی حلقوں کے اہم ستونوں میں شمار ہوتے ہیں ‘ انہوں نے خیبر پختونخوا میں ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ادب و شعر کی تہذیب کا جو رویہ اپنایا ‘ اس کی وجہ سے ان کی شہرت نہ صرف ملک گیر حیثیت کی حامل ہے بلکہ ان کے لاتعداد شاگرد پاکستان کی مختلف درسگاہوں کا حصہ بن کر ان کے نام کو روشن کر رہے ہیں ‘ اور بیرون ملک بھی ان کی شہرت ان کے ادبی رویوں کی پہچان بن چکی ہے ۔
ڈاکٹر نذیر تبسم اپنی شاعری کے حوالے سے ایک اہم نام ہے ‘ ان کی رومانوی شاعری انہیں نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر بناتی ہے اور اس دعوے کے ثبوت کے طور پر ان کے شعری مجموعوں کے اوراق بکھیرتے ہوئے لاتعداد اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں ‘ تاہم چونکہ زیر نظر تحریر ڈاکٹر صاحب موصوف کی شاعری میں عصری آشوب کے تناظرمیں تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ نذیر تبسم بحیثیت ایک شاعر اور حساس قلم کار اپنے گردو پیش سے قطعاً بے خبر نہیں ہیں ‘ انہوں نے اپنے سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کو گہری نظر سے دیکھا ‘جانچا اور پرکھا ہے اور ان حالات سے متاثر ہو کر معاشرے پرپڑنے والے اثرات کو حرز جاں بنا کر بقول ساحر لدھیانوی جو کچھ تجربات و حوادث کی شکل میں سماج نے انہیں دیا ‘ انہیں اپنے الفاظ کا جامہ پہناکر لوٹانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
آج انہی تناظر میں دیکھتے ہیں ‘ جب ہم قومی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں ‘ اپنے وطن میں سیلاب زدگان کا نوحہ پڑھ رہے ہیں ‘ لگ بھگ ایسی ہی بربادی ہم نے بارہ سال پہلے 2010ء میں بھی دیکھی تھی ‘ ان حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے ڈاکٹر نذیر تبسم نے ایک حساس قلمکار کے طور پر کہا تھا۔
کہاں کا سلسلہ تھا اور کہاں تک آگیا ہے
مگر ‘ سیلاب خطرے کے نشان تک آگیا ہے
ایک عام لکھاری سیاستدان تو نہیں ہوتا نہ وہ سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے پر خود کو آمادہ کر سکتا ہے (بجز چند ایک کے) ‘ تاہم سیاسی حالات سے وہ متاثر نہ ہو ‘ ایسا تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ آخر وہ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہے کوئی پتھر کا بت تو نہیں ‘ اس لئے وہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے
ہم کہ معتوب رہے ہیں ‘ جس میں
کیسا بے چہرہ تھا وہ دور میاں
ہم تو شطرنج کے مہرے ہیں نذیر
چال چلتا ہے کوئی اور ‘ یہاں
ان کی ایک خوبصورت غزل جو نوجوان نسل میں بہت مقبول ہے اور جس کی فرمائش اکثر مشاعروں میں ان سے کی جاتی ہے ‘ اس غزل میں جہاں رومانویت کا عنصر غالب ہے ‘ وہیں عصری آشوب کی جھلک بھی بعض اشعار میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے اور ان اشعار میں معاشرتی کج روی کو انہوں نے استعاراتی انداز میں برتا ہے ‘ دونوں طرح کے اشعار ملاحظہ کیجئے۔
آپ کیا تھوڑی سی زحمت بھی نہیں کر سکتے
صرف ‘ اقرار محبت بھی نہیں کر سکتے
میری ہر بات ہوائوں کو بتا دیتے ہیں
آپ خوشبو کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
یہ بھی کیا کم ہے کہ ہم اس کے مقابل آئے
تم تواس بات کا جرأت بھی نہیں کر سکتے
ظلم سہنے کے علاوہ تمہیں آتا کیا ہے
بزدلو’تم تو بغاوت بھی نہیں کر سکتے
کڑھتے رہتے ہیں ہر اک بات پہ اندر سے نذیر
اور یاروں سے شکایت بھی نہیں کر سکتے
ڈاکٹر نذیر تبسم کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے اور دیکھئے کہ انہوں نے عصری تقاضوں کو کس خوبصورتی سے الفاظ کا جامہ پہنا کر برتا ہے ‘ ان اشعار کو زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک استعاراتی حالہ بنتا دکھائی دیتا ہے ‘ جس میں معاشرے کے خدوخال واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔
آپ سے کس نے کہا تھا کہ محبت کیجے
آپ تو اہل سیاست ہیں ‘ سیاست کیجے
دام میں آئے پرندوں کی رہائی کے لئے
آپ چپ ہیں تو خموشی کی وضاحت کیجے
آپ اشرافیہ طبقے کے نمائندہ ہیں
آپ کو حق ہے کہ توہین عدالت کیجے
آپ سے کوئی توقع بھی نہیں ہے ‘ ہم کو
آپ بے شک کسی جابر کی حمایت کیجے
حوالہ دینے پر آیا جائے تو حالات کے تناظر میں معاشرتی جبر سے پیدا ہونے والے عصری آشوب کو لاتعداد اشعار میں تلاش کیاجا سکتا ہے بلکہ ایسے اشعار کو یکجا کیاجائے تو یہ حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ ڈاکٹر نذیر تبسم نے عصری آشوب کوایک استعارے کے طور پر برتا ہے ‘جو ان کی شاعری کو ہم عصر شعراء سے ممتاز بنا دیتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے