ایجوکیشن کارڈ کا اجراء اور اعلیٰ تعلیم کے تقاضے

آفاقی حقیقتیں مستقل ہوتی ہیں اور انہیں من وعن تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ بھی آفاقی حقیقت ہے کہ کسی قوم کی ترقی اور بقاء تعلیم میں مضمر ہوتی ہے۔جو علاقہ جتنا پسماندہ ہو اسے تعلیم کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے ۔ خیبر پختونخوا جو ماضی قریب میں آلام ومصائب کا شکار رہا ہے ۔ عالمی سیاست کا مرکزہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اسی صوبے کا ہوا ہے ۔بدامنی کے بعد اس صوبے کی بحالی بے حد ضروری ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حالت اور حالات بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ تعلیم ہے۔ تعلیم سے سماج میں عدم برداشت پیدا ہوتی ہے اور اسی تعلیم سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ۔روزگار سے معاشی ترقی آتی ہے اور محرومیاں ختم ہوتی ہیں اور سوسائٹی میں امن پھیلتا ہے ۔ ہمارے صوبے کی زیادہ آبادی وسائل کی کمی کا شکار ہے ۔ ظاہر ہے وسائل کم ہوں تو تعلیم پہلی ترجیح نہیں رہتی ۔ غریب اور متوسط طبقے کو تعلیم کے لیے آمادہ کرنا پڑتا ہے ۔ انھیں مفت تعلیم دی جاتی ہے تاکہ اگلی نسلوں میں تعلیم کا شعور آجائے اور یہ نسلیں اپنے حالات اسی شعور سے تبدیل کرسکیں ۔ عوام کو تعلیم دینے کی حکومتی سطح پر بھی کوششیں یہی رہی ہیں کہ تعلیمی نظام کو متوسط طبقے تک لایا جائے ۔ بچوں کو سرکاری سکولوں میں لانے کی کوششیں بھی کی گئیں جو بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہیں ۔ یہ تو بنیادی اور ثانوی تعلیم کا معاملہ ہوگیا دراصل پاکستان کا سب سے بڑ امسلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے ۔ مگر اس پہلومیں بھی ایک خوش آئند بات مضمر ہے کہ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ دنیا جو اس وقت گلوبل ویلج بن چکی ہے اور اس کارپوریٹ ورلڈ میں ہیومن ریسورس کی مانگ ہر وقت موجود رہتی ہے ۔ بغیر تعلیم کے اس ہیومن ریسورس میں دیہاڑی دار مزدور ہی پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔سکلڈ ہیومن ریسورس پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ اگر چہ ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہمارے کالج اور یونیورسٹیاں اچھا کام کررہی ہیں ۔ خاص طور پر ہمارا بی ایس کا چارسالہ پروگرام دوسرے صوبوں کی نسبت بہت اچھا جارہا ہے ۔ لیکن یہ بھی طے ہے معاشی حالات کی ابتری کی وجہ سے تعلیم کے شعبے کو اتنا فنڈ میسر نہیں آسکتا کہ جتنی اس کی ضرروت ہے ۔ مشکل حالات میں بھی نئے کالج کھولنا موجودہ حکومت کا تعلیم کی جانب اچھا اقدام ہے ۔ گزشتہ برس صوبائی حکومت نے سرکاری کالجوں میں بی ایس کی تعلیم کی مشکلات دور کرنے کرنے کے لیے 1900پوسٹوں کا اضافہ کرکے اس کمی کو پورا کیا تھا ۔ شنید ہے کہ مزید پوسٹوں کی تخلیق کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ان1900 پوسٹوں کے حوالے سے یہ بات بھی قابل رشک ہے کہ پبلک سروس کمیشن کے سیلکشن کے عمل میں سرکاری کالجوں سے فارغ التحصیل بی ایس طلباء کی بڑی تعداد کامیاب ہوئی ہے۔ سرکاری کالجوں کا فیس سٹرکچر بھی بہت کم ہے ۔ چھ ماہ کے ایک سمسٹر کی کل فیس5000سے زیادہ نہیں جبکہ سرکاری یونیورسٹیوں میں30سے 40چالیس ہرار فی سمسٹر فیس لی جاتی ہے اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا اپنا پنا فیس سٹرکچر ہے ۔ صوبے کی یونیورسٹیاں تو بڑے شہروں یا قصبوں میں ہیں جبکہ سرکاری کالج دورافتادہ علاقوں میں بھی کامیابی سے کام کررہے ہیں ۔ جہاں گھر کی دہلیز پر بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت73کالجوں کو اپ گریڈ کرواچکی ہے جبکہ 37کے قریب زنانہ ومردانہ نئے کالج بھی کھولے جاچکے ہیں ۔صوبائی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کی جانب ایک قدم اٹھا یا ہے جو یقینا مستقبل میں اچھے نتائج لے کر آئے گا ۔اور یہ قدم انصاف ایجوکیشن کارڈ کا اجراء ہے ۔ میں اپنے ہائرایجوکیشن کے تین دہائیوں پر محیط تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ صوبائی حکومت کا یہ اقدام نہ صرف ہماری سوسائٹی کے لیے نیا ہے بلکہ اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ خبروں کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمو د خان ذاتی طور پر ایجوکیشن کارڈ کے اجراء میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اس ضمن میں ابتدائی معاملات طے ہوچکے ہیں ۔اس کارڈ کے اجراء سے خیبرپختونخوا کے سرکاری کالجز کے دو لاکھ44 ہزارسے زائد طلبہ مستفید ہوں گے اور اس مقصد کیلئے رواں بجٹ میں ایک ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے گزشتہ روز انصاف ایجوکیشن کارڈ کے اجراء کے سلسلے میں محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ایک اجلاس کی صدارت کی تھی۔ صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش، صوبائی وزیر خزانہ تیمور سیلم جھگڑا، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف،سیکرٹری اعلیٰ تعلیم داؤد خان نے شرکت کی تھی۔اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ہائر ایجوکیشن انڈونمنٹ فنڈ کے تحت اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں طلباء کو بی ایس ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر سکالر شپس بھی اسی ایجوکیشن کارڈ سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اس انڈونمنٹ فنڈ کی خاص بات یہ ہے کہ اس فنڈ سے طلباء نہ صرف صوبے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکالر شپس کے ذریعے تعلیم حاصل کرسکیں گے بلکہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے علاوہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں بھی ہمارے طلباء اس انڈونمنٹ فنڈز کے ذریعے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔سماج میں تعلیم عام کرنے کی مثال ایک پھل دار پودا لگانے کی سی ہے ۔جس کا میوہ وقت آنے پر بہت سے لوگوں کے منہ میں مٹھاس بھر دیتا ہے ۔ شرط صرف اچھے باغبان کی ہے ۔اگر اچھا باغبان میسر آجائے تو پھل دار پودے کا لگنا طے ہوجاتا ہے ۔ مجھے اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ان کاوشوں پر نہ صرف خوشی ہے اور ایک تابناک مستقبل خیبر پختونخواکا منتظر دکھائی دیتا ہے ۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ،منسٹر ہائر ایجوکیشن اور سیکریٹری ہائر ایجوکیشن اس ضمن میں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان