اللہ کا دیانور کبھی نہ ہووے دور

گزشتہ کالم میں برطانیہ میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی دیہانت اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب سے متوقع تبدیلیوں پر گفتگو ہوئی تھی اس کا لم کی اشاعت سے جو باز خورد حاصل ہو ا اس سے اندازہ ہو ا کہ اہل وطن سچی مچی سیاست سے بیزار بیٹھے ہیں ، کچھ نیا ذائقہ چاہتے ہیں ، تاہم لازمی نہیںکہ نیاذائقہ سے سواد بھی لا زم ہواعوام نے تقریبا ًچار سال پہلے کچھ نئے ہونے کی تمنا میں جو ذائقہ چکھا تھا اس کی اب وہ بھگتان کررہے ہیں خیر عوام کے فیصلوںکا احترام ہر حالت میں لازم ہے ،ذائقہ توکھٹا مٹھا توہوتا ہی ہے ، بات ہورہی تھی برطانیہ میں نئی تبدیلیوں کی اس مرتبہ گزشتہ کالم کے حوالہ سے جو نظر باز گشت برقی مراسلہ کے ذریعہ حاصل ہوا ، اس میں قارئین کی جانب سے اس دلچسپی کا اظہار بہتات سے پایا گیا کہ وہ مزید خواہش رکھتے ہیںکہ برطانوی حالت نو سے پڑنے والے اثرات کا مزید اعادہ قلم ہو جا ئے یہاں اعا دہ قلم کو سر قلم سے منسوب نہ کرنا ، خاص طور پر کوہ نور ہیرے کے حوالے سے اصرا ر زیادہ پایا گیا ، کوہ نو ر ہیرا کے بارے میں تو تاریخ دان ہی تفصیل بیان کرسکتے ہیں وہ پس ماندہ شخص اس بارے میں کیا بولے گا جس کی زندگی خود سیاست دانوں کے ہاتھو ں پتھر سے کنکرہوچکی ہو ، بہر حال اس بارے میں اتنا ہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ کوہ نور دنیا کے بیش بہا ہیروں میں سے ایک ایسا ہیر ا ہے جو ہندوستان کے بادشاہ کے تاج کی زینت سے چھین کر برطانیہ کے بادشاہوں کے تاج کی زینت بنا دیا گیا اور آج بھی یہ قیمتی ہیرا تاج برطانیہ کی چمک دمک کو خیر ہ بنانے میں سجا ہوا ہے ، کہا جا تا ہے کہ اس قیمتی ہیرے کے برابر اب تک کوئی ہیر ا نہیں ہے ، اس کے وجو د کاسراغ مہا بھارت کے زما نے سے ملتا ہے ، ہندو را جاؤں کے پاس سے گزرتاہوا مسلمان حکمرانوں میں منتقل ہوا مگر یہ بھارتی تاریخ دانوں کا ادعا ہے کوئی مصدقہ بات نہیں ہے ، البتہ مصدقہ تاریخ یہ بتا تی ہے کہ ابراہیم لو دی کے ایک گورنر نے شنہشاہ ہمایوںکو نذرانے میںپیش کیا تھا مغل بادشاہوں سے یہ ہیر ا نادر شاہ کے تصرف میں آیا اور غالباً اسی نے اس ہیرے کا نام ”کوہِ نور” اس کی چمک دمک دیکھ کر رکھا، نادر شاہ کے بعد شاہ شجاع والئی قندھار کے پاس رہا وہ بھاگ کر ہندوستان آیا تو یہ ہیرا اس کے ساتھ تھا، یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع سے حاصل کر لیا، رنجیت سنگھ کے پاس سے انگریزوں کے ہاتھ لگا اور اب تاجِ برطانیہ کی زینت ہے، اس کی عظمت، چمک وغیرہ کی بنا پر اکثر اشیاء کا نام بھی ”کوہِ نور” رکھ لیتے ہیں.یہ ان مول ہیرا گوآج بھی برطانیہ کے شاہی تاج میں جڑ ہو ا ہے ، جس کے بارے میں برطانیہ کا شاہی خاندان اور برطانوی عوام اپنی عظمت کی دلیل سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ان مول ہیرے کی داستان ہندو ستان کے مسلمان بادشاہو ں اور ہندوستان کے مسلما نو ں کی داستان برطانوی اقتدار کی پیشانی پر سجائے ہوئے ہے ۔ اس ہیر ے کو انگریزوں نے 1849ء میں ہندوستان سے برطانیہ منتقل کیا تھا تب سے آج تک یہ نا در ہیر ا شاہی تاج کی زینت کی شعاعیں بکھیر رہا ہے ، اب یہ ہیرا برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس کے تاج پر سج جائے گا، یہ بھی اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی طورپر یہ ہیرا مسلما ن بادشاہوں کی ملکیت ہے تاہم بھارت کے بشمول پاکستان ، افغانستان اور ایران سبھی اس کی ملکیت کے دعوے دار چلے آرہے ہیں ، بھارت نے اس سلسلے میں پچاس ارکین راجیہ سبھا کے دستخطو ں کے ساتھ ایک قرار داد منظور کر تے ہوئے برطانیہ کو روانہ کی تھی ، اور کوہ نور ہیر ے کامطالبہ کیا تھا ، لیکن اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون نے بھارت کو مشورہ دیا تھا کہ کہ یہ ہیرا اب ہندوستان کو دوستانہ تعلقات کی بنیا د پر حاصل ہو سکتا ہے ، یعنی مطالبہ پر نہیں۔یہ ہی نہیں کہ برطانیہ نے صرف دنیا کے انمول ہیرے پر ہی بس کرلیا تھا ، برطانیہ نے اپنے دور حکمر انی میں مغل بادشاہوں کے قیمتی ہیر ے جواہر ات سے سجے محل سراؤں سے دیو اروںپر جڑے مو تی بھی اکھا ڑ کر برطانیہ منتقل کیے ، اور صرف یہ نہیں بلکہ 1947ء میںملکہ برطانیہ آنجہا نی الزبتھ کی شادی کے موقع پر اس وقت کے آصف جاہی سلطنت کے آخری فرماں روا میر عثما ن علی خان نے اپنے شایان شان کے مطابق تین سو ہیر وں سے جڑا نکلس پیش کیا تھا ۔لیکن جب بھارت نے مسلم ریاست حید ر آباد جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلا ن کیا تب میر عثمان کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا گیا اس پر برطانیہ کے نہ تو شاہی خاندان اور نہ کسی جمہو ری قوت نے بھارت کے خلا ف کوئی آواز نہیں اٹھائی بلکہ بھارت کی جانب سے حید ر آباد دکن ریاست پر بزور قوت قبضہ کرنے بھی برطانوی لسی پی کے سو رہے ۔اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو تا ہے کہ برطانوی حکمر انوں کا رحجا ن بھارت کی طرف رہا ہے ، آنجہانی ملکہ برطانیہ صرف ایک مرتبہ ایو ب خان کے دور میں پاکستان کا دورہ کیا ، جبکہ وہ اپنے ستر سالہ دور میں بھارت تین مرتبہ گئیں ، ملکہ الزبتھ نے 27سال کی عمر میں اپنے والد جارج ششم کے بعد اقتدار سنبھالا تھا جبکہ ان کے صاحبزادہ شہزاد ہ اب بادشاہ برطانیہ چارلس نے 73سال کی عمر میں بادشاہت سنبھالی ہے ، ان کے بارے میں یہ یقین کیا جا رہاہے کہ وہ بھی اپنی والدہ کی طر ح ایک کا میاب و زیر بادشاہ ثابت ہو ں گے ، بادشاہ چارلس کی زندگی کشاکشی کا شکا ر رہی ہے ، انھو ں نے 1981لیڈی ڈیا نا اسپنسر سے محبت ی شادی کی تھی جو تا دیر ثابت نہ ہو سکی 1996ء میں طلا ق ہو گئی تاہم کہا جا تا ہے کہ جن افرا د کی ازواجی زندگی کشاکشی میں گزر جائے ان کہ سیاسی زندگی کامیا ب تر رہتی ہے ۔ برطانوی شاہی خاندان اور برطانیہ کی تاریخ سے یہ ثابت ہو تا ہے جہا ں قانون ، آئین کی حکمر انی ہو وہا ں ایک مضبوط اور نا قابل تسخیر نطام قائم رہتا ہے جو وہا ں کی عوام اورریا ست کے استحکام وخوشحالی کا ضامن بھی ہوتا ہے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے برصغیر پاک وہند کے سیا سی اور انتظامی امور کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صرف یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہا ں قانو ن ، اصول ضوابط اور آئین کو کوئی بالا دستی حاصل نہیںہے بادشاہو ں اور مہا راجو ں کے دور میںاقتدار کے لیے کیسے کیسے خون اچھالا گیا ، ہوس اقتدار میں بھائی نے بھائی کی آنکھیں تک نکالیں ،آج بھی ویساہی کھیل کسی نہ کسی رنگ میں کھیلا جا رہا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں