ڈالر اوپر نیچے کیوں ہوتا ہے؟

چند سال سے منظر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ روپے کی قدر کم ہورہی ہے اور امریکی ڈالر کی قدر کم یا تیز رفتاری کے ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے، روپے کی قدر کم ہونے سے ہماری معیشت بیٹھے بٹھائے قرض کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے، درآمدات اور برآمدات میں فرق آجاتا ہے، جس سے تجارتی توازن بگڑ جاتا ہے، ملکی معیشت کی کہانی سے متعلق یہ ایک سادہ سا بیانیہ ہے مگر گنجلک کس قدر ہے اس سے عام آدمی کم ہی واقف ہے، اسے تو دو وقت کی روٹی کی فکر ہی سے آزادی نہیں مل رہی اس کو کیا سوچنا اور کیا سمجھنا، اندازہ تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط مل جانے پر ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں کم ہوگی، روپیہ تگڑا ہو جائے گا لیکن یہ خواہش پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ کیا ہے اور یہ کس بلا کا نام ہے؟ اور کس قدر طاقت ور جن ہے کہ بوتل میں بند ہی نہیں ہو رہا، اس کھیل کے باعث ڈالر شرح تبادلہ نے کاروباری تو کیا عام آدمی کو بھی پریشان کر رکھا ہے، ڈالر کی اڑان روکنے کے لیے حکومت کا کوئی اقدام کارگر ثابت نہیں ہورہا کرنسی ایکسچینج کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی رائے ہے کہ پاکستانی شہری کسی کاروباری ضرورت کے بغیر امریکی ڈالر خرید کر ذخیرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی ڈالر کی اسمگلنگ بھی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اتحادی جماعتیں حکومت میں آتو گئی ہیں مگر انہیں ابھی تک سکھ کا سانس نہیں ملا، کہ وہ حکومتی امور پر توجہ دے سکیں، یہ بات درست ہے کہ اسمبلی میں اپوزیشن نہیں ہے، مگر اس کے باوجود سڑکوں پر آئی ہوئی اپوزیشن حکومت سے سنبھل نہیں پا رہی صدرِ مملکت بھی سیاسی قوتوں کے درمیان ڈائیلاگ کے حامی ہیں لیکن ان کے پاس بھی چانس کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعتماد سازی کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو اقتصادی میدان میں بھی کامیابیاں نہیں مل پا رہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسا فیصلہ کرے کہ بیرون ملک سفر کرنے والے افراد اور درآمد کنندگان ہی ڈالر خرید سکیں یا بیرون ملک تعلیم کے حصول اور علاج معالجے کے لیے جانے والے ہی ڈالر خرید سکیں بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے کرنسی اسمگل کی ہر کوشش ناکام بنا دی جائے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں میں گھرا ہوا ہے اور ملکی معیشت بدترین مسائل میں گھری ہوئی ہے، ایسے عناصر کے خلاف سخت اقدمات کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں سخت اقتصادی ڈسپلن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا کم و بیش ایک تہائی حصہ ابھی تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ اور یہ بدترین لالچ کا مظاہرہ کرنے والے ڈالر خرید کر گھروں میں تجوریاں بھر رہے ہیں، کہ منافع کمایا جائے، انہیں کوئی پروا ہی نہیں کہ دنیا ہمارے بد ترین سیلاب کی وجہ سے پریشان ہے اور ہمیں ریسکیو کرنے کا سوچ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے70سالہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ہزاروں میل کا سفر طے کر کے بنفس نفیس پاکستان پہنچے، تو جو کچھ ان کی آنکھوں نے دیکھا، اور کانوں نے سنا،اس پر بے ساختہ پکار اقوام عالم کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد بھی نہیں ہے لیکن عالمی طاقتوں کے کیے کی سزا اِسے مل رہی ہے، لیکن ہم خود کیا کر رہے ہیں، جو کچھ کر رہے ہیں کیا اس سے ذاتی تسکین ہوگی یا قوم کو فائدہ ہوگا، کچھ تو حیا ہونی چاہیے ایسے لوگوں کو جو مشکل کے وقت بھی اپنے لالچ کی آب یاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کے70سالہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جو الفاظ ہمارے لیے بولے ہیں دنیا سن رہی ہے، ان کے لہجے اورالفاظ نے اہل ِ پاکستان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی ان کا شکر گزار ہے سیکرٹری جنرل پرتگالی سیاست دان ہیں، پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، پرتگال کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں، ان کی عمر نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کرتے، اور محبت کا پیغام عام کرتے گزری ہے اس لیے تو انہیں اللہ نے یہ منصب دیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ یہ بھی سوچیے؟ جو لوگ ڈالر اس لیے خرید رہے ہیں کہ انہیں منافع ہوگا ان کے سینے میں دِل کی جگہ پتھر ہے اور جو سیلاب متاثرین کے پاس جانے کے بجائے جلسے کر رہے ہیں ان کے دل میں سوائے کالک کے اور کچھ نہیں ہے، پانی کا سیلاب تو خیر ایک روز اتر ہی جائے گا لیکن یہ جو مقبولیت کا بخار اور سیلاب ہے مگر یہ کم ہی اترے گا بس اب پوری قوم توبہ کرکے انہیں رد کرنے کا کوئی فیصلہ کرے گی تو یہ بخار اترے گا مقبولیت کی گردان ووٹ کی طاقت ہی سے گردن زنی ہوگی آئندہ انتخابات میں مقبولیت دوتہائی اکثریت سے بھی زیادہ ووٹوں سے مسترد ہو گی تو یہ سیلاب اترے گا ورنہ مقبولیت کی قوالی کی جاری رہے گی، سیلاب متاثرین کے پاس جانے کے بجائے دھمکی دی جارہی ہے کہ ہے کسی کی مجال کہ ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے، بد ترین کاروباری طبقہ اور لالچی سرکاری ملازمین ملک میں اسی افراتفری کا فائدہ اٹھا کر ڈالر کے پہاڑ اپنے گھروں میں کھڑے کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم حکومت کی نظروں میں نہیں ہیں یہ سب نظروں میں ہیں وہ ان حالات کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی نہ سمجھیں تو بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد