غیر ضروری بحث

پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صاف اور شفاف انتخابات کروائیں، اگر جیت جائیں تو پھر اپنی مرضی سے نئے آرمی چیف کا تقرر کریں، جس کی گنجائش بن سکتی ہے۔وکیلوں نے مجھے بتایا ہے کہ اس کی پرویژن (گنجائش)نکل سکتی ہے، یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ آرمی چیف کی بہت اہم پوزیشن ہے، آرمی چیف کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہئے لیکن ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ آصف زرداری اور نواز شریف میرٹ کے لئے کوالیفائیڈ نہیں ہیں۔حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو خوف ہے کہ جب بھی انتخابات ہوں گے ان کو ہارجانا ہے، حکومت میں بیٹھتے ہیں تو اور برا ہوتا ہے، حکومت سے باہر نکلتے ہیں اور الیکشن کرواتے ہیں تو انہوں نے ہارجانا ہے۔دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان اقتدار کی واپسی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ایک طرف عمران خان اسٹیبلشمنت پر حملہ کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس سے مذاکرات کے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔دریں اثناء چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے سیاسی اتحادی اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سینیئر قیادت اور مقتدر حلقوں کے درمیان رابطہ ہوا ہے جس کا نتیجہ ابھی سامنے نہیں آیا لیکن جلد بہتری آئے گی۔ ایک خصوصی انٹرویو میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ فوج ہماری ہے اور عمران خان سمیت کوئی بندہ فوج کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتا جو غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں ان کو ختم کرنا چاہئے۔وطن عزیز کی سیاست میں الزام اسٹیبلشمنٹ پر مداخلت کا لگایا جاتا ہے لیکن عالم یہ ہے کہ ابھی آرمی چیف کی تقرری میں کافی وقت باقی ہے لیکن اس موضوع پرسیاسی رہنما گفتگو میں سبقت کی سعی میں ہیںجس طرح چیف جسٹس کی تعیناتی سینیارٹی کے تحت تقرری کا طریقہ کار وضع کرکے حل کر لیا گیا بری فوج کے سربراہ کی تقرری کے لئے بھی کوئی فارمولہ وضع کیا جانا چاہئے تاکہ ہر بار اس موضوع کا اعادہ نہ ہو اور یہ معاملہ یکبارگی طے پا جائے۔ پاک فوج مثالی نظم و ضبط رکھنے والی دفاعی قوت ہے لیفٹیننٹ جنرل تک ترقی کا ایک معیار اور میرٹ ہے اس عہدے تک پہنچنے والا کندن بن ہی جاتا ہے اور ہر عہدیدار ضروری کوائف پوری ہونے پرجنرل بننے کا حقدار ہوتا ہے جس طرح کی صورتحال بنتی ہے وہ خود پاک فوج کے لئے بھی کوئی خوشگوار امر نہیں بلکہ اگر قرار دیا جائے کہ اس طرح کی تقرری کے لئے کھینچا تانی میں فوجی قیادت بھی متاثر ہوتی ہے بسا اوقات جونیئر کو آرمی چیف بنانے پر روایت کے مطابق دیگر کو ریٹائرمنٹ لینی پڑتی ہے اس طرح ان کو دوہری ناخوشگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نہایت آسان موزوں اور قابل قبول حل یہ ہے کہ جوبھی سب سے سینئر ہو اس کی تقرری خود بخود یقینی ہو جائے کسی سیاستدان اور حکمران کی پسند و ناپسند کا اس میں دخل ہونے کا امکان ہی معدوم بنا دیا جائے اسی سے ہی فوجی قیادت میں پہلے سے زیادہ یکسوئی اور سینیارٹی کا احترام ہو گا اور حکومت و ملک و قوم سبھی کے لئے سو فیصدقابل قبول جنرل کی تعیناتی ہو گی جہاں تک توسیع کا سوال ہے میرٹ پر آنے والے جنرل کو بوقت حقیقی ضرورت توسیع دینے کا حکومت کو اختیار میں مضائقہ نہیں البتہ اس کی بنیاد سیاست و مفادات نہیں ہونے چاہئیں بلکہ وقت اور حالات کے مطابق فیصلہ ہو تو اس پر معترض ہونے کی گنجائش نہیںاس وقت حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں بجائے اس کے کہ توسیع تو تقرری کو موضوع بحث بنائیں اگر وہ اصولی طور پر اس امر پر اتفاق کر لیں کہ آئندہ کی تقرری سینیارٹی پر ہو گی اور آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے کوئی بیان بازی اور اظہار خیال نہیں ہوگابلکہ سینیارٹی لسٹ کے مطابق ہر کسی کو اس امر کا علم ہو گا کہ آرمی چیف کا عہدہ کب اور کتنے وقت کے لئے کونسے جنرل کے پاس رہے گا اور ریٹائرمنٹ کب ہوگی۔اس سے بڑھ کر دلچسپ امر کیا ہوگا کہ اس وقت سیاستدان سیاسی معاملات پر تو مل بیٹھنے کو تیار نہیں مگر آرمی چیف کے معاملے پرمفاہمت کا عندیہ دیا جارہا ہے جسے دوسرے لفظوں میں مداخلت قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ عسکری قیادت کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور سیاسی قیادت و حکومت اپناکام کرے اور ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت