پالیسی ا حسن’ عملدرآمد بھی تو ہو

وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ پراونشل کلائمٹ چینج پالیسی اینڈ ایکشن پلان2022کی منظوری سے اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا پہلا صوبہ بن گیا ہے جس نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک پالیسی بنائی ہے۔ گلیشئرپگھلنے،سیلابوں اورٹڈی دل (لوکسٹ)حملوں کے بعد کلائمٹ چینج پالیسی میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ نئی پالیسی ایک طرف موسمی تبدیلیوں کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے جو ایک طرف قدرتی اور انسانی نظام کو لاحق خطرات کو کم سے کم کرنے کے اقدامات پر مبنی ہے تو دوسری طرف گرین ہائوس گیس کے اخراج کو بھی کم کرتی ہے۔ نئی پالیسی میں زراعت’ جنگلات’ ماحولیات’ جنگلی حیات’ توانائی’ ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں کیلئے مخصوص اقدامات تجویز کئے گئے ہیں اوریہ نظرثانی شدہ نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی2021کے اغراض و مقاصدسے بھی ہم آہنگ ہے۔ نئی پالیسی خیبر پختونخوا بشمول ضم شدہ علاقوں کے نومختلفAgro-Ecological Zones کی ضروریات سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے اور یہ GLOF’ ڈینگی’ لوکسٹ اور دیگر قدرتی آفات کے خطرات کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہیں جو ان خطرات سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل تجویز کرتی ہے۔ صوبے میں کچرے اور فضلہ سے توانائی بنانے کے پلانٹ کی تنصیب کے لئے فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کی جارہی ہے بائیو فیول پلانٹ کی تنصیب سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ممکن ہوگا اور اس سے ہم توانائی کے شعبے میں خودمختار ہو سکیں گے۔خیبر پختونخوا میںصرف اس ہی میں نہیں بلکہ قبل ازیں بھی ایسے اقدامات اور قانون سازی کی گئی جس میں ان کو دیگر صوبوں پر سبقت رہی ہے ماحولیاتی امور اور موسمی تبدیلی کے حوالے سے ماہرین ایک عرصے سے خدشات کا اظہار کر رہے تھے جن کی روشنی میں اگردیکھا جائے تو بعض مثبت پیش رفت جیسے شجر کاری کی مثال دی جا سکتی ہے پر توجہ ضرور دی گئی لیکن علاوہ ازیں ماحولیاتی آلودگی کے تقاضوں اور خاص طور پر بے ہنگم اور بغیر منصوبہ بندی اور ضرورت کی تعمیرات مستزاد ایسی جگہوں اور مقامات پرتعمیرات کی روک تھام اور تجاوزات کی بروقت روک تھام پرتوجہ دی جاتی اگر دیکھا جائے تو آج ہی کے اخبار میں شائع یہ خبر ارتکاب غفلت کی کافی مثال ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جمرود میں ٹمبر مافیا کی جانب سے قدرتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ جاری ہے جبہ میں نایاب قدرتی پلوسہ درختوں کو جڑوں سے کاٹ دیا گیا ہے اور مزید بھی کٹائی جاری ہے ایک طرف حکومت جنگلات لگانے کا دعویٰ کررہی ہے جبکہ دوسری طرف نایاب قدرتی درختوں کی بے دریغ کٹائی پر مکمل خاموش ہے۔ محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ بھی معاملے پر کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ قدرتی جنگلات کی کٹائی سے جبہ کے علاقے کا حسن ماند پڑنے لگا ہے۔ان عوامل سے قطع نظر اگر حالیہ بارشوں اور سیلاب کے مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا نقطہ آغاز خیبر پختونخوا ہی ہے چترال سے دریاسندھ میں سیلاب شروع ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب دیر سوات کا پورا علاقہ ہی سیلاب کے جنم لینے کا باعث بنتے ہیں لیکن جائزہ لیا جائے تو چترال ‘ دیر اور سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن میں جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی آلودگی پرقابوپانے کے لئے اقدامات ندارد اب جبکہ ایک تفصیلی جائزے کے بعد صوبائی پالیسی کااعلان کیا گیا ہے جس میں محولہ امور کااحاطہ کیاگیا ہے تو توقع کی جانی چاہئے کہ ان کا عملی اطلاق بھی ہو گا۔ پالیسی کی تشکیل مستحسن امر ہے اصل کام عملدرآمد کا ہے جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور حکومت کی پوری توجہ اس پر ہونی چاہئے کہ یہ اس کا عملی طور پر نفاذ ہو اور مجوزہ اقدامات یقینی ہوں۔
آٹا کی تقسیم کا سہل نظام وضع کرنے کی ضرورت
سرکاری آٹے کی ترسیل و تقسیم کے نظام سے شکایات بڑھتی جارہی ہیں آٹا ٹرک آنے پر لوگوں میں جھگڑا کامعمول بن جانے کی وجوہات میں کچھ تو معاشرتی عوامل کا باعث ضرور ہوگا لیکن اگرانتظامیہ باقاعدہ طریقہ کار وضع کرکے اس کے مطابق تقسیم کا عمل شروع کر سکے اس امر پر توجہ دی جائے کہ آٹا سے کوئی محروم نہ رہے تو سفید پوش خواتین و حضرات بھی باعزت طریقے سے آٹا حاصل کر سکیں گے۔سرکاری نرخ پرآٹے کی فروخت یقینا احسن اقدام ہے اور اس سے لوگوں کو ریلیف ملتا ہے لیکن اس کا طریقہ کار ایسا مقرر کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں تک آٹا پہنچ نہیں پاتا بہتر ہوگا کہ آٹا تقسیم کرنے سے قبل اتنے ٹوکن جاری کئے جائیں جتنے تھیلے ٹرک میں آتے ہوں باقی کے لئے اگلی باری مقرر کی جائے تاکہ یکے بعد دیگرے آٹا حاصل ہوسکے اور دھینگا مشتی کے متحمل نہ ہونے والے اور ضعیف و خواتین اور بچوں کو بھی باری پر آٹا مل سکے ۔سرکاری آٹے کی تقسیم نظم و ضبط کے ساتھ نہ ہونے سے ایک احسن عمل کی افادیت باقی نہیں رہ گئی ہے اورعوامی شکایات میںاضافہ ہو رہا ہے تھوڑی سی توجہ کے ساتھ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور عوامی شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟