ٹکراؤ یا بقائے باہمی؟

امریکہ کی طرف سے اٹھائے گئے متعدد اشتعال انگیز اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ چین کے ساتھ کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی اور کانگریس کے دیگر اراکین کے تائپے کے متنازع دوروں کے بعد تائیوان کیلئے ایک ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے پیکج کا اعلان پر چین کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے پلوسی کے دورے کو حیران کن اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا، تائیوان کو ہتھیاروں کی ممکنہ فروخت پر چین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے تعلقات شدید خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ادھر امریکہ نے چینی کمپنیوں کو چپ ٹیکنالوجی کی امریکی برآمد حالیہ پابندیوں کے ذریعے ”ٹیک جنگ ” کو بھی تیز کر دیا ہے، جسے چین نے امریکہ پر قومی سلامتی کے تصور کی آڑ میں ٹیکنالوجی کی ناکہ بندی قرار دیا ہے۔ یقیناً دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اب ایک نئی سرد جنگ کی علامت ہے۔ معاشی لحاظ سے باہمی انحصار کے باوجود دونوں عالمی طاقتیں خطرناک تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ امریکہ چین پر قابو پانے کی پالیسی پر گامزن ہے جبکہ بیجنگ نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ وہ کوئی بحران نہیں چاہتا لیکن اپنے مفادات کے تحفظ اور امریکی اقدامات کا مقابلہ بھرپور انداز میں کرے گا۔ امریکی اقدامات کے جواب میں روایتی میزائل داغنے سمیت تائیوان کے گرد چین کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں اور مشقوں سے اس بات کا عندیہ ہیں کہ وہ تائیوان پر فوجی دباؤ بڑھانے کیلئے بھی تیار ہے جبکہ امریکہ اپنی طرف سے وہاں فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔
بلاشبہ تائیوان کے معاملے پر دونوں ممالک میں تناؤ خطرناک رخ اختیار کر رہا ہے۔ چینی رہنماؤں نے بارہا واشنگٹن کو متنبہ کیا ہے کہ اگر بیجنگ کی متعین کردہ سرخ لکیر کو عبور کر کے تائیوان کی آزادی کیلئے علیحدگی پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو وہ اس کا بھرپور جواب دے گا، تاہم امریکہ کا اصرار ہے کہ وہ ” ون چائنہ پالیسی” بدستور کار بند ہے۔ دریں اثناء امریکی حکام ” اسٹیٹس کو ” کو تبدیل کرنے یا آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی یکطرفہ کوششوں کی بھی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ مئی میں اپنے جاپان کے دورے کے دوران جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو وہ اس کے دفاع کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ان کے اس بیان پر بیجنگ کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا اور کہاگیا کہ بائیڈن آگ سے کھیل رہے ہیں۔
کیا امریکہ اور چین کے درمیان موجودہ تناؤ فوجی تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے؟ اس بار میں ماہرین کی آراء منقسم ہیں۔ کئی سابق امریکی حکام اور مغربی تجزیہ کار تناؤ کے ایسے نتیجے سے متعلق خبر دار کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک ہنری کسنجر نے بائیڈن انتظامیہ کو ایک نہ ختم ہونے والے تصادم کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک اس جنگ کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو عالمی جنگ جیسی تباہی لا سکتی ہے۔ سابق آسٹریلوی وزیر اعظم کیون رڈ کا بھی خیال ہے کہ کسی قسمم کا بھی تصادم تباہ کن ثابت ہوگا۔ اس سال کے اوائل میں شائع ہونے والی اپنی کتاب” The Avoidable War ” میں انہوں نے دو ”سپر پاورز” میں منظم اسٹریٹجک مقابلے کو حوالے دیتے لکھاکہ مشترکہ اسٹریٹجک لائحہ کی تیاری سے انہیں اپنے بنیادی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر بقائے باہمی کا راستہ تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے، اس طرح جنگ کے خطرے کو بھی ٹالا جا سکتا ہے۔سیاسی امور کے امریکی ماہر ایان بریمر نے یہ زبردست دلیل پیش کی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تصادم ، جس میں دوسرے ممالک کو بھی کسی ایک فریق کا انتخاب کرنا پڑے گا، دنیا کو تین آنے والے عالمی بحرانوں جیسا کہ وبائی امراض، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور طرز ندگی بدلنے کی حامل ٹیکنالوجی کے چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے سے روکے گا۔ اپنی نئی کتاب ”دی پاور آف کرائسس” میں انہوں نے لکھا کہ مربوط مقابلے بازی کی دوڑ میں شامل حریف طاقتوں کے درمیان شراکت داری ہی دنیا کے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
اگرچہ امریکہ اور چین درمیان ابھی ایسی کوئی امید افزاء پیشرفت نہیں ہوئی جس سے کشیدگی میں کمی اور تعلقات میں استحکام کی توقعات پوری ہوں تاہم چینی صدر شی جن پنگ اور ان کے امریکی ہم منصب بائیڈن کے درمیان نومبر میں انڈونیشیا میں ہونے والے جی20 سربراہ اجلاس کے موقع پر ملاقات متوقع ہے، یہ ان کا پہلا دو بدو رابطہ ہوگا ۔ دونوں رہنماؤں میں گزشتہ بات چیت فون یا ویڈیو کے ذریعے ہوئی تھی جس میں انہیں اپنے اپنے مؤقف واضح کرنے میں مدد ملی لیکن اس رابطے کے باوجود تناؤ میں کمی نہیں آئی، اب آیا بالی میں ہونے والی ملاقات کشیدہ تعلقات کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوگی یا نہیں اس کا تعین ابھی باقی ہے ، لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کو متاثر کرنے کے حامل ان تعلقات کوٹوٹنے یا جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ،چنانچہ چین،امریکہ تعلقات کا مستقبل کا راستہ عالمی معیشت، بین الاقوامی امن اور سلامتی اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے حوالے سے دور رس نتائج کا حامل ہے۔( بشکریہ، ڈان، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام