رابن رافیل اسلام آباد میں

امریکہ کی معروف سابق سفارت کار مسز رابن رافیل عین اس وقت اسلام آباد میں موجود تھیں جب ان کے حاضر سروس امریکی جانشین اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ووسطی ایشیا مسٹر ڈونلڈ لو بھارت میں موجود تھے ۔ڈونلڈ لو وہی شخصیت ہیں جو ان دنوں ایک سائفر نما ہدایت نامے کی بنیاد پر پاکستان کے سیاسی تنازعے کا مرکزی کردار بن کر رہ گئے ہیں ۔جس طرح ان کا نام پاکستان کے جلسوں میں جلوسوں میں زیر بحث رہا ہے پاکستان میں شاید ہی کسی غیر ملکی کا نام اس طرح فضائوں میں گونجتا رہا ہو ۔اس شہرت نما بدنامی کا نقصان یہ ہوا کہ ڈونلڈ لو سردست پاکستان آنے سے قاصر ہیں ۔ڈونلڈ لو بھارت میں پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کے پرزوں کی فراہمی کے حوالے سے صفائیاں پیش کرتے رہے اور بھارت کو کواڈ میں چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے مگر یوں لگتا ہے کہ مسٹر لو کو اس مقصد میں زیادہ کامیابی نہیں ملی ۔ایسے میں اس ان کی سابق ہم منصب اسلام آباد میں پائی گئیں بلکہ یہی نہیں انہوں نے امریکہ اور ڈونلڈ لو سے ناراض سابق وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی ۔بنی گالہ کے ذرائع نے ا س ملاقات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی مگر بعد ازاں عمران خان نے خود اس ملاقات کی تصدیق کی ۔رابن رافیل عمران خان سے ذاتی حیثیت میں ملیں یا ان کے پاس امریکہ کے پالیسی سازوں کا کوئی پیغام تھا ؟ یہ حقیقت تو وقت کے ساتھ ساتھ کھلے گی مگر اس ملاقات کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر امریکہ مخالف ہونے کے تاثر کی تردید کرتے ہوئے امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات کی حمایت کی ہے۔رابن رافیل کے دورے کا ایک مقصد تو یہ بھی ہوسکتا مگر اس کے ساتھ ساتھ رابن رافیل اسلام آباد میں موجود ی ظاہر کرکے اور بھارت کے بارے میں سخت گیر پاکستانی راہنما عمران خان سے مل کر بھارت کی دُم پر پائوں بھی رکھ رہی تھیں ۔یوکرین کے مسئلے پر بھارت کی آزاروی کی پالیسی نے امریکہ کو کسی حد تک مایوس کیا ہے اور اسے یہ خدشہ ہے کہ اسی طرح کسی فیصلہ کن موڑ پر بھارت چین کے خلاف استعمال ہونے سے پہلو تہی کرسکتاہے ۔بھارت سے یہ مایوسی امریکہ کو پاکستان کی طرف دوبار ہ رجوع کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اس طرح کی آنکھ مچولی مدتوں سے جاری ہے ۔نوے کی دہائی میں امریکہ نے کشمیر پر ایک واضح لائن اختیار کرکے بھارت کو اپنے ساتھ تعلقات پر مجبور کیا تھا ۔اس وقت امریکہ مبینہ طور پرکشمیر میں کئی مسلح تنظیموں کی مدد بھی کرتا رہا ۔ رابن رافیل کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کے چارنکاتی فارمولے کی حامی رہی ہیں ۔اس لئے ان کے دورے کے پس منظر میں یہ امکان موجود ہے کہ امریکہ ایک بار پھر سفارتی راہداریوں میں بھولے بسرے مشرف فارمولے کو تازہ کرسکتا ہے ۔ رابن رافیل بل کلنٹن کے ہنگامہ خیز دور میں امریکہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے
جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے عہدے پر کام کر چکی ہیں اور اس حیثیت میں ان کا پاکستان اور بھارت کی قیادتوں اور کشمیری نمائندوں کے درمیان قریبی تعلق رہا ہے۔انہیں کلنٹن انتظامیہ نے کشمیر کے مسئلہ کو سمجھنے اور سلجھانے کا ہدف بھی دیا تھا ۔اس طرح وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دونوں ملکوں کو قریب لانے کے لئے غیر اعلانیہ سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔رابن رافیل نے 2017 میں امریکہ میں سری نگر کے صحافی پرویز مجید کو دورہ امریکہ کے دوران اہم انٹرویودیا تھا ۔ جس سے ان کے خیالات کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔یہ انٹرویو بھارتی اخبار ریڈف میں تین قسطوں میں شائع ہوا تھا۔رابن رافیل کا انٹرویو ”کشمیر سینٹرک ” تھا مگر اس میں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بھی کئی اہم باتیں کی گئی تھیں ۔وہ بھارت میں مودی حکومت کے
سخت گیر رویے کے باعث حالات سے مایوس نظر آرہی تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دنیا کے لئے بھارت کی قابل تعریف بات مختلف مذاہب ، قومیتوں کے مابین توازن تھا اور وہاں مسلمانوں کی بڑی تعدادہے ۔اب اس کے برعکس ہو رہا ہے۔یہ نئی پالیسی اچھی نہیں اور اس کا جاری رہنا بھارت کی بدقسمتی ہے۔ رابن رافیل کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے کئی مواقع ملنے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی تک سلگ رہا ہے ،رابن رافیل نے لگی لپٹی رکھے بغیر کشمیر کے حالات کی ذمہ داری بھارت پر عائد کی جس نے طاقت کے استعمال کو مسئلے کا حل سمجھ کر اقدامات اُٹھائے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں فوج کی اس قدر بڑی تعداد تعینات کر رکھی ہے۔رابن رافیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ برسوں وادی میں تشدد کم ہوا تھا تو یہ بھارت کی طرف سے مسئلے کو حل کرنے کا اچھا موقع تھا۔کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کے مذاکرات سے حل نہیں ہوسکتا اس کے لئے تین فریقوں پاکستان ،بھارت اور کشمیری عوام کو مل کر بات چیت کرنا ہو گی۔ان کے مطابق پرویز مشرف کا دور مسئلے کے حل کا اچھا موقع تھا جب ماحول نظریاتی کشمکش اور کشاکش سے باہرآگیا تھا۔ان کے مطابق اب بھی مسئلہ پرویز مشرف کے چار نکاتی خطوط پر حل کیا جا سکتا ہے۔ان کے خیال میں امریکہ کو دونوں ملکوں کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ مذاکرات کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو سب سے اوپر رکھیں۔دہلی اس وقت قابض قوت کے طور طریقوں سے مسئلہ حل کررہی ہے ۔مسئلہ موجود ہے اور اسی لئے کشمیر کے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر مسئلے کو مستقل طور حل کرنے کی بات ہوگی تو پھر سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عسکریوں سے بھی بات کرنا ہوگی ۔جب آپ یہ قید لگاتے ہیں کہ فلاں سے مذاکرات کرنا ہیں فلاں سے نہیں تو اس سے مذاکرات کے خواہش مندوں کے لئے سپیس باقی نہیں رہتی۔ رابن رافیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کسی ایک ملک کو نہیں مل سکتا نہ مستقبل قریب میں سرحدوں میں ردوبدل کا کوئی امکان ہے لیکن بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیریوں اور پاکستان کو شامل کرنا ہوگا ۔پانچ سال پہلے رابن رافیل کے ان خیالات سے ان کے دورے اورمستقبل کے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت