سولر سسٹم کا ادھورا خواب

ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ سولر سسٹم لگوائیں اور بجلی پیدا کرکے خود بھی چین سے جئیں اور مہینے سو پچاس آن گرڈ یونٹس واپڈا پر بیچ بھی لیں ۔ اس سوچ کے پیچھے بس یہی احساس تھا کہ واپڈا جو ہم سے اب تک کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے بلوں کی صورت میں وصول چکا ہے کچھ تو ہم بھی ان سے وصول لیں ۔لیکن شاید نیپرا والے ہمارے ”خوفناک عزائم” بھانپ گئے اور ہمارے خیالی منصوبے کی تکمیل سے پہلے ہی آن گرڈ سولرسسٹم والوں کے لیے نئی قانون سازی کرنے کی تیاری شروع کرڈالی ہے ۔ سولر سسٹم میں ایک آف گرڈ اور ایک آن گرڈ سسٹم ہوتا ہے ۔ آ ن گرڈ سسٹم یعنی سولر پینلز سے حاصل کردہ بجلی گھر ہی میں استعمال ہوجاتی ہے ۔ جبکہ آف گرڈمیں گھریلواستعمال سے بچ جانے والی بجلی واپڈا کی لائن میں چلی جاتی ہے ۔ یعنی دن کو آپ نے 10یونٹ گھر کے استعمال میںبچائے اور شام کو آپ نے 12یونٹ واپڈا کے خرچ کیے توآپ کو 2یونٹ کابل آئے گا اور اگر آپ کے زیادہ یونٹ واپڈ کی لائن میں چلے گئے تو واپڈا آپ کا قرض دار ہوجائے گا ۔ اس سسٹم میں ان گوئینگ اور آؤٹ گوئینگ یونٹس کا ریٹ ایک ہی ہوتا ہے ۔ یعنی اگر آپ نے مہینے کے 100 یونٹ واپڈا کودئیے تو واپڈا ان یونٹوں کا وہی ریٹ لگاتا ہے جن ریٹس میں وہ صارف کو بجلی دیتا ہے ۔ آج کی خبر ہے کہ نیپرا اپنے یونٹ تو مہنگے دام میں دے گا اور صارف کے یونٹس کے کم دام لگائے گا ۔ اب نیپرا نے اس کی وجہ نہیں بتائی کہ ہمارا کتا کیوں کتا ہے اور واپڈا کا کتا ٹامی کیوں ہے ۔ ہوسکتا ہے صارفین کی سولر سسٹم والی بجلی میں ”کرنٹ” ہو۔ یا اس میں آئیوڈین کی کمی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سولر بجلی چھکنے میں کڑوی ہو۔ضرور نیپرا کے اعلیٰ اذہان کے پاس اس کی کوئی بہت واضح منطق یا جواز ہوگا ۔ کیونکہ اتنی مشکل باتیں اعلیٰ اذہان میں ہی آتی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے لاکھوں خرچ کرکے آن گرڈ سسٹم لگوائیں ہوں گے ان کی تو سوچ یہی ہوگی کہ دو چار پیسے بچیں گے لیکن نیپراکی اپنی بادشاہت ہے جب چاہے بجلی کے نرخ بڑھا دے کرلوجو کرنا ہے ۔ اب نیپرا والوں سے کوئی پوچھے کی IPPsکے لیے ایسا کوئی حکم ہوسکتا ہے ۔ بہرحا ل صارف بیچارہ تو پشتومتل کے مصداق ”بندھا ہوا مرغا ”ہے جب دل کرے حلال کرلو ۔آن گرڈ ٹیرف میں اس تفاوت کا پیدا کرنے کا تو مجھے ایک ہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ لوگو سولر پر مت جاؤ مہنگی بجلی تمہارا نصیب ہے اور اپنے نصیب کو بھگتو ۔ ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے سولرائزیشن کو تقویت دینے کی بات ہورہی ہے ۔ میاں شہباز شریف اعلان کرچکے ہیں اگلے برس تک 10ہزار میگا واٹ بجلی سولر سسٹم سے پیدا کی جائے گی ۔ جس میں بڑا حصہ گھریلوصارفین ڈالیں گے ۔ لیکن دوسری جانب نیپرا کا ٹھینگا سر پر۔ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے کے بعد تو عوام یوں بھی بے حال ہیں ۔ وزیراعظم صاحب خود فرمارہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ناک سے لکیریں کھنچوائیں ہیں ۔ ضرور ایسا ہی ہوا ہوگا لیکن زور کس پر پڑا عوام پر ۔ بجلی کے بلوں نے سچ مچ کے دھویں اڑادئے ۔ لوگوں نے موٹرکاریں اور موٹرسائیکلیں گھروں میں کھڑی کردی ہیں ۔ پٹرول نے تو جیسے آگ ہی لگادی ہے ۔ مہنگائی اور اخراجات اللہ اللہ ۔ایسے موقعہ پر عوام دوست پالیسیاں بنانا چاہیئے تھا لیکن الٹا بانس بریلی کو والی صورتحال ہے ۔ جہاںہزاروں کلوواٹ مہنگی ترین
بجلی آئی پی پیز سے لی جاتی ہے وہاں کل ملا کرچند سو واٹ بجلی اگر صارفین سے خریدلی جائے تو کیا قیامت آجائے گی ۔ کیونکہ نیٹ میٹرنگ ابھی بہت ابتدائی مراحل میں ہے۔ اور یہ کیا اچھی بات نہیں کہ خود حکوت اس نیٹ میٹرنگ یا آن گرڈ سولر سسٹم کی حوصلہ افزائی کرے ۔ لوگ اپنی جیب سے سولر سسٹم لگاتے ہیں ۔ کم از کم صارفین اپنی بجلی فری کردیں تو اس بجلی کا لوڈ نیشنل گرڈ سے کم ہوسکتا ہے ۔اور اگر اضافی بھی پیدا کرے تو لائن سے کسی دوسرے کو وہ بجلی میسر آسکتی ہے ۔پاکستان میں دریاؤں کی کمی نہیں ہے ۔ پانی سے بنی بجلی دنیا کی سستی ترین بجلی ہے لیکن خداجانے ہم دریاؤں پر ڈیم باندھ کر بجلی بنانے میں کیوں ناکام رہے ۔ اب سولر پر بھی یہ کاری وار سوچنے پر مجبور کررہا ہے نیپرا کہیں کسی اسی آئی پی پیز سسٹم کو بحال اور کامیاب دیکھنا تو نہیں چاہتا ۔سولر سسٹم کی ڈیمانڈ بھی بڑھ رہی ہے اگر صارفین اس سسٹم پر کنورٹ ہوتے ہیں تو ان کے بل میں یونٹ کم آئیں گے۔ جب یونٹ کم آئیں گے تو فیول ایڈجسمنٹ کا کلہاڑا کس پر لگایا جائے گا؟ میری موٹی عقل میں تونیپرا کا یہ فیصلہ سولرائزیشن کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے ۔ جس کا نہ تو ملک کوفائدہ ہے نہ ہی عوام کو اگر فائدہ ہے تو عوام کا خون چووسنے والی IPPsکمپنیوں کا ہے کہ عوام جیے یا مرے مہنگے بل جمع کرواکر ان کی تجوریاں بھرت رہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے وزیراعظم ایک سال میں 10ہزار میگا واٹ بجلی سورج سے لینا چاہتے ہیں اور نیپرا اس سے مختلف ڈائرکشن میں فیصلے کرنے جارہا ہے ۔ اگر یہی حالت رہی تو بس دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام