خیبر پختونخوا میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی اوربھتہ خوری کے واقعات میں اچانک سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کاکوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ہمارا موقف ہے کہ سیز فائر کے دوران ٹی ٹی پی نے کارروائی میں پہل کی اس لئے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ۔یادرہے کہ خیبر پختونخوامیں گزشتہ تین ماہ کے دوران دہشت گردی کے113نئے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں دو خودکش حملے بھی شامل ہیںپندرہ دستی بم حملے، سات ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کے تیس واقعات ہوئے ہیں۔ صوبے میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں44افراد شہید اور اڑسٹھ عسکریت پسندمارے گئے۔خیبر پختونخوا میں کچھ عرصہ خاموشی کے بعد ایک بار پھر سے بدامنی اور بھتہ خوری بڑھتی جا رہی ہے اور رواں برس محکمہ انسداد دہشت گردی کے پاس بھتہ خوری کے 39کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ خاموشی سے بھتہ خوروں کو ادائیگی کرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ محکمہ انسداد دہشتگردی کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق خیبر پختونخوا میں2022 میں اب تک بھتہ خوری کی39 شکایات رپورٹ کی گئی ہیں۔ دریںاثناء کالعدم تحریک طالبان سوات کی جانب سے سوات کے مختلف علاقوں میں مزید حملے کرنے کا اعلان کردیاگیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق طالبان کا اجلاس تحصیل مٹہ کے علاقہ کنالہ میں منعقد ہوا جس میں پچاس سے زائد شدت پسندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں امن کمیٹی کے سابق ارکان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں خوانین اور اے این پی کے رہنماؤں کو اور تیسرے مرحلے میں فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جائیگا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مختلف علاقوں میں تشکیل کئے گئے طالبان کے دستے پہنچ گئے ہیں ۔دوسری جانب بتایاگیا ہے کہ سوات میں طالبان کے سامنے آنے، دہشتگردی کے پے درپے واقعات اور بھتہ خوروں کی جانب سے فون کالز کے بعد ملاکنڈ ڈویژن سے بیشتر ارکان اسمبلی اپنے اہل خانہ کے ساتھ پشاور اور اسلام آباد منتقل ہوگئے ہیں ۔ سوات کے علاقے مٹہ میں چند ہفتے قبل طالبان کے پولیس کے ساتھ مقابلے اور سکیورٹی اہلکاروں کے جرگے کے نتیجے میں رہائی کے بعد سوات کے حالات مسلسل خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیںسوات، شانگلہ اور دیر سمیت متعدد اضلاع کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی نے اپنے اہل خانہ کو وہاں سے نکال لیا ہے اور خود بھی سوات چھوڑ چکے ہیں ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ منتخب ارکان اسمبلی نے پشاور اور اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لئے ہیں جبکہ چند ارکان بیرون ملک دوروں پر چلے گئے ہیں سوات ، دیر اور بونیر میں شہریوں کی جانب سے چند روز قبل امن مارچ بھی کیا گیا ہے جس میں چند ارکان اسمبلی ہی شریک ہوئے ہیں جبکہ بیشتر ارکان نے امن مارچ سے خاموش علیحدگی اختیار کررکھی ہے۔کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات و معاملت کون کررہا تھا اوراب صورتحال کیا ہے اس میں صوبائی حکومت کاکتنا عمل دخل رہا ہے سوات میں طالبان کی ابتدائی کارروائیوں کے دوران صوبائی حکومت نے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک ادا کیں اور طالبان مبینہ طور پر کن کے ساتھ خاموش مفاہمت یا پھر تعرض نہ کرنے پر دیر کے راستے واپس چلے گئے غرض بہت سے سوالات ہیں اور اگر معاملات کا صوبائی حکومت ہی کے ہاتھوں اور اس کے فیصلوں پر انحصار ہے تو پھر تحریک انصاف ہی کے مرکزی لیڈرمراد سعید کے ویڈیو بیان کی حقیقت کیا ہے ان کا مخاطب کون ہے ان تمام سوالات سے قطع نظر طفلانہ بیان یہ ہے کہ طالبان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اس کے باوجود کہ انہوں نے فائر بندی ختم کرکے حملے بھی شروع کر دیئے اور ان واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں ان حالات میں مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ ہویا نہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حالات ایک مرتبہ پر اس نکتہ آغاز کولوٹ رہے ہیں جس کے بعد صوبے میں دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی گئی پورا صوبہ اور ملک متاثر ہوا اسی ہزار افراد جان سے گئے سوات میں بعینہ وہ دور لوٹ آیا ہے کالعدم تحریک طالبان سوات نے حملوں کااعلان کردیا ہے اور چارہ دست بشمول عوامی نمائندے سوات سے نکلنے لگے ہیں چارہ دستوں کی منتقلی اپنی جگہ لیکن جو لوگ خود کو عوامی نمائندے کہتے ہیں اور حکومت میں ہیں اگر اس وقت وہی عوام کو اکیلے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کریں گے توکیا اس علاقے سے ان کی سیاست ہی کا خاتمہ نہ ہوگا ان کی جماعت کے بارے میں لوگوں کے تاثرات کیا ہوں گے ا گلے انتخابات میں یہ عناصر عوام اور مخالفین کا سامنا کیسے کر پائیں گے سوات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت تحریک انصاف کے بعض اہم رہنمائوں کا آبائی علاقہ ہے گزشتہ دور ابتلاء میں بھی سوات کے عوامی نمائندے عوام کو تنہا چھوڑ گئے تھے جس کا رد عمل ان کو بھگتنا پڑا جس سے قطع نظر اگر حالات و واقعات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو اس وقت صوبے میں بدامنی اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ان حالات میں اہم امر یہ نہیں کہ مذاکرات ختم کرنے کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے یا نہیں ان حالات میں اہمیت کا حامل امر یہ ہے کہ صوبے کے عوام کے تحفظ کے لئے حکومت کتنی سنجیدہ ہے اور سکیورٹی کے اداروں سے اس کے روابط اور مشاورت کی کیا صورتحال ہے عوام کوان حالات سے نکالنے اور ان کے تحفظ کی ذمہ داری کس حد تک اور کس سنجیدگی سے نبھائی جارہی ہے وزیر اعلیٰ کے آبائی علاقہ سوات میں طالبان جس طرح سے کھلم کھلا کا رروائیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اب تک جتنے واقعات ہوئے ہیںان واقعات کی روک تھام طالبان مخالف کمیٹیوں اور حکومت سے تعاون کرنے والے افراد کے تحفظ اور ان پر حملوں کے مرتکب افرادکے خلاف کس حد تک کارروائی کی گئی ہے دیکھا جائے تو دھمکی دینے والے اپنی دھمکیوں کو با آسانی عملی جامہ پہنانے کے بعد بحفاظت نکل جاتے ہیں دوسری جانب اب تک بے بسی کی سی کیفیت کا سامنا ہے ان عناصر کے خلاف کسی بڑی کارروائی اورتطہیری مہم کے بھی آثار نہیں یہی وجہ ہے کہ عوام میں بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ احتجاج کرکے اپنے جذبات کا اظہار کرکے حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں مگر اب تک حیرت انگیز طور پر حالات پر پراسراریت کے سائے ہیںحالانکہ ان واقعات کے بعد جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ کوئی ایسے اقدامات بھی نہیں جس پرغور و فکر اور مشاورت کی ضرورت محسوس کی جائے حالات کا تقاضا ہے کہ ان واقعات کے ذمہ داروں کو مسکت جواب دیا جائے اور سوات ودیر کے علاقوں میں سکیورٹی کے اضافی اقدامات کا بروقت فیصلہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں من حیث المجموع سکیورٹی میں اضافہ اور حالات سے نمٹنے کی تیاری وقت کا اہم تقاضا ہے جس میں تاخیر باعث نقصان ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے