پاکستان کہاں ہے

جب ہم پاکستان کے سیاستدانوں کے ذاتی دنگل سے آزاد ہو جائیںگے جب ان کا ذاتی عناد ایک دوسرے کے منہ نوچ کر ایک دوسرے کی مکمل کردارکشی کے بعد ‘ بالاخر تھک کر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس سارے زہر کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کا حاصل بھی کچھ نہیں تو وہ شاید اس ملک کے بارے میں سوچیں گے یا شاید انہیں یہ احساس ہوگا کہ ان کی وہ طاقت جسے وہ مسلسل ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا استعمال اگرملک کے مفاد کے لئے کریں ‘ کسی خواب کودیکھنے اور پھراس کی تکمیل کے لئے کریں تو معاملات میں افاقہ ممکن ہے ‘ اس وقت پاکستان کے ہاتھ ایک سمت آئیگی ایک ایسی سمت جودراصل اس ملک کوترقی کا خواب دیکھنے کی جرأت بخشے گی ‘ اور اس وقت ان لوگوں کے لئے بھی نئے فائدے جگنوئوں کی طرح چمکیں گے ۔ اس ملک کی تباہی میں ان جیسے سیاست دانوں کے لئے کوئی فائدہ نہیں اس ملک کی بہتری کے ساتھ ہی ان کا مفاد بالآخر نتھی ہے ۔ اس وقت ایک دوسرے پرخونخوار جانوروں کی طرح پل پڑنے کے بجائے انہیں احساس ہوگا کہ اس ملک سے کسی حد تک وفاداری میں ان کا بھی فائدہ ہے ۔ وہ لوگ جو ابھی امریکہ کی ایک گھرکی کے بعد تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور پھر ان کے منہ سے آواز تک نہیں نکلتی اور ان کی اتنی تابعداری کے باوجود آج بھی مغرب کا خیال ہے کہ روس کے یوکرائن کے حملے پر پاکستان نے اپنی غیر جانبداری کا اعلان کرکے درست نہیں ۔ کوئی انہیں یہ کیسے بتائے کہ اس غیرجانبداری کا اتنازور دار اعلان گزشتہ حکومت نے کیا تھا کہ مغرب نے صرف اسی کو اپنے ربط خیال کا حصہ بنا رکھا ہے ۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی یہ کچھ خاطر خواہ معاملات میں تبدیلی نہ لا سکے ۔ ان کی مغرب سے خوفزدگی کے باوجود یہ بہت دفعہ ‘ ایک عزم صمیم کا ہاتھ تھامے ہوئے ‘ اس بات کا اعادہ نہیں کرسکتے تھے کہ پاکستان اس جنگ میں یوکرائن کے ساتھ ہے ۔ یہ دھیمے دھیمے کہتے رہے اور کسی نے ان کی بات کا یقین ہی نہ کیا۔ مغرب آج بھی پاکستان کی غیر جانبداری پر ملول ہے کیونکہ روس اور یوکرائن کی جنگ دراصل روس اور امریکہ کی جنگ ہے سوشلزم اورسرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ہے ۔ ویت نام نے ذرا آمادگی کیا دکھائی سرمایہ داروں کے لئے ویت نام جنت بن گیا آج کل ویت نام کو Donou Darling بھی کہا جاتا ہے یعنی امداد فراہم کرنے والوں کا پسندیدہ علاقہ ۔ اس کی دیگر وجوہات بھی بے شمار رہی ہونگی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امداد فراہم کرنے والے سارے ادارے ہی سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہیں۔امریکہ اور روس کے درمیان اس نظریاتی جنگ کی کئی مثالیں پوری دنیا میں موجود ہیں۔ پاکستان کی جانب سے غیر جانبداری کا یہ اعلان اسی لئے روس کے پلڑے میں تصور کیا جارہا ہے کیونکہ یہ جنگ دراصل نظریات کی جنگ ہے ‘ نظریاتی جنگوں میں جوانب جذباتی ہوا کرتی ہیں اور کسی کا خاموش رہنا بھی اپنے نظریئے کے مخالف تصور ہوتا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا معاملہ بھی کچھ اسی نہج کا معاملہ ہے تبھی جب مغرب کشمیرکے معاملے پربھارت کی مذمت نہیں کرتا ‘ اس کا ہاتھ نہیں روکتا بلکہ اسے دو ملکوں کے درمیان کامعاملہ تصور کرتا ہے ۔ اسی لئے جب بھی کسی قسم کی بات مغرب کی جانب سے کی جاتی ہے ‘ حالیہ روس اور یوکرائن کے معاملے میں بھی یہی ہوا تو کشمیر کے معاملے کے ساتھ اس کا موازانہ کیاگیااور یہ باربارکہا گیا کہ روس اور یوکرائن کی جنگ کا معاملہ ‘ ان دونوں ملکوں کا داخلی معاملہ ہے ‘ پاکستان اس میں حصہ دار اس لئے بننا نہیں چاہتا کیونکہ پہلے بھی کسی بلاک کا حصہ بننا اسے راس نہیں رہا۔ چونکہ پاکستان امریکہ سے کچھ شاکی بھی ہے اور اس نے کبھی بھی امریکہ کی حمایت غیر مشروط محسوس نہیں کی اس لئے یہ غیر جانبداری خود پاکستان کوٹھیک دکھائی دیتی ہے ۔ بات صرف اسی حد تک محدود نہیں ‘ پاکستان اور چین کی دوستی میں بھی امریکہ کے لئے اشارے ہیں یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے بہرحال مفر ممکن نہیں کہ پاکستان کی داخلی سیاست اور اس سیاست کے محرکات نے پاکستان کو جمہوریت کے گزشتہ قریباً پچیس سالوں میں اور اگر اس میں 1985ء کی اسمبلی کے ڈھائی سال بھی شامل کرلئے جائیں تو قریباً ستائیس سال میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ پہلے بے نظیر بھٹواور میاں نواز شریف کے درمیان اختلاف مسلسل ہماری آنکھوں کے سامنے رہتاتھا۔ اس میں کبھی کچھ تبدیلی آئی جب فوج اقتدار میں حصہ دار ہوئی اورپھرایک وقت میں مذہبی جماعتیں مسلم لیگ نون کی معیت میں پیپلز پارٹی اور ان کے حواریوں کے ساتھ نبرد آزما رہیں اوراب پاکستان تحریک انصاف ہے اور دوسری جانب ہر قسم کی سیاسی جماعت ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لڑائی میں پاکستان کہاں ہے کیونکہ اب جولڑائی منظرعام پردکھائی دیتی ہے اس پرمرغوں کی لڑائی کا گمان ہوتا ہے ۔ اس لڑائی کا پاکستان کا تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ ذاتیات کی حد تک بڑھی ہوئی ہے ۔ اس لڑائی میں پاکستان کے مفاد کا نعرہ تولگتا ہے لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔سیلاب ملک کو تباہ حالی کی راہ پر بہاتے ہوئے بیس سال پیچھے لے گئے ہیں۔ ایک ایسی معیشت جو پہلے ہی کورونا کے وار سہہ کر ادھ موئی تھی۔ کسی لیڈر کے نہ ہونے سے مضمحل اور نحیف تھی اب سیلاب کی تباہ کاری کاشکار ہوگئی ہے ۔ ابھی تونقصان کا مکمل اعادہ ہونا مشکل ہے ۔ اس چوٹ کا اثرتوآہستہ آہستہ محسوس ہونے لگے گا ایسے میں یہ سیاسی لڑائی صرف اس ملک ‘ اس کے عوام کے ساتھ دشمنی ہے ۔ اس کا اس ملک کو اس کے نظام کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا لیکن انا کے گنبد میں بند سیاستدان یہ کہاں سمجھتے ہیں۔ اس ملک کے عواماب اس سیب میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اب تو موت و حیات کی حدوں کے درمیان جھول رہے ہیں انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ملک کاوزیر اعظم کون ہے اور کونسی سیاسی جماعت حکومت کر رہی ہے ۔ ان کے لئے سب برابر ہیں جواس وقت ان کو سامنے نظر آئے گا ان کی توجہ اسی کی جانب ہوگی اوراس وقت ان کے سامنے فوج ہے اورانہی جسے عام لوگ ہیں جوہاتھ بڑھا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی