مشرقیات

ایک بادشاہ تھا بہت بڑا بادشاہ اس نے حکم دیا کہ ایک قلعہ بنائو بہت مضبوط اور بہت پائیدار ہو۔
عرض کیا گیا کہ شاہا اس میں تو بہت خرچہ ہو گا۔
فرمان ہو۔ خرچ کی فکر نہ کرو ۔ شاہی خزانے کے منہ کھول دیئے جائیں گے جب اور جتنا روپیہ چاہئے لے جائواور خرچ کرو ہم پانی کی طرح روپیہ بہانے کو تیار ہیں مگر حکم یہ ہے کہ وہ قلعہ ایسا مضبوط بنایا جائے کہ ہمارا بڑے سے بڑا حریف بھی اسے سر نہ کر سکے دشمن کی ہزاروں ‘ لاکھوں کی فوج آئے تو اس کی فصیلوں سے سر پھوڑ کر مر جائے اور ہمارا بال بیکا نہ ہو حکم کی دیر تھی کہ شاہی عمارت سازوں نے نقشے بنائے او کام شروع کردیا ہر روز اس منصوبے پر بات ہوتی ‘ سیسہ پلائی ہوئی دیواریں کیسے بنیں گی کہاں بنیں گی بادشاہ بڑا خوش تھا کہ وہ ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنوا رہا ہے دن رات کی محنت سے کئی برسوں میں آخر وہ قلعہ تیار ہو گیا جس نے دیکھا تعریف کی اور بادشاہ کومبارک باد دی خوشامدیوں کی بن آئی گویوں تو زمین و آسمان کے قلابے ملاتا تھا مگر انہی ضمیر فروشوں میں ایک اللہ کا بندہ ایسا بھی تھا جواس سارے تماشے پر چپ رہا جب بادشاہ نے دیکھا کہ یہ کچھ نہیں بولتے تو ان سے پوچھا۔۔ کیا بات ہے آپ کچھ نہیں بولتے؟
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں جہاں جھوٹے ‘ فریبی ‘مکار’ خود غرض اور بد نفس لوگ ہوتے ہیں وہاں سچے اچھے اور اللہ سے ڈرنے والے بھی ہوتے ہیں چنانچہ اس اللہ کے نیک بندے نے بادشاہ سے کہا ۔۔ جہاں پناہ ! آپ نے اور آپ کے والدین نے بڑے قلعے جیتے اور بڑی فتوحات کیں۔
بادشاہ نے کہا ہاں اس اللہ والے نے کہا۔۔۔ شاہا! کیا وہ قلعے مضبوط نہ تھے ؟ بادشاہ نے جواب دیا۔۔ مضبوط کیوں نہ تھے یہ تو ہمارا کمال ہے کہ ہم نے ان مضبوط قلعوں کو سر کیا۔ اس عقل مند نے کہا ۔۔ معلوم ہوا کہ قلعہ چاہے کتنا ہی مضبوط ہو سر کیاجا سکتا ہے سلطنت کی مضبوطی قلعے اور فصیل سے نہیں بلکہ بادشاہ کے اخلاق اور عدل سے ہوتی ہے لوگوں سے نیک سلوک کیجئے ان میں سے ہر ایک آپ کے لئے مضبوط قلعہ بن جائے گا ان کی دعائیں آپ کے لئے حصار کا کام کریں گی ۔ حضور والا !تجربہ بتاتا ہے کہ مضبوط رہنے اور نہ ٹوٹنے والی شئے صرف نیکی ہے اور نیکی کا سرچشمہ عدل ہے ۔
ایک ارشاد نبویۖ کا مطلب ہے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش و خرم اور آباد رکھے جو میری بات غور سے سنے پھر اسے یاد کر لے اور محفوظ رکھے مطلب یہ کہ اس پر عمل کرے۔
سنن ابودائوداور جامع ترمذی میں ہے اس کے بعد آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بھی اس کا فریضہ ہے کہ میری یہ بات دوسروں تک پہنچائے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھی اور بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے نگران کار بھی۔ہم نے نگر ان کاری کے فریضہ کو بھلا دیا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں اچھی باتوں پر عمل کرنے اور اچھی باتوں پر عمل کروانے کی کوشش ہی سے کوئی معاشرہ زندہ رہ سکتا اور ترقی کر سکتا ہے ورنہ معاشرہ بکھر جاتا ہے نیکی کرنا اور کروانا ہر مسلمان کا فرض ہے نیکی جوڑنے والی ہوتی ہے اور برائی بانٹنے اور توڑنے والی نیکی کرنے والا چاہا جاتا ہے برائی کرنے والا منہ چھپاتا پھرتا ہے نیکی قوت ہے اور اتنی بڑی قوت کہ اس کے آگے قلعہ فصیل حصار کوئی کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات