گیس بحران کے بڑھتے خدشات و خطرات

گھریلوصارفین کے لئے گیس کی سہولت میسر آنے کے نظام الاوقات کی تشکیل کی مخالفت مطلوب نہیں لیکن اصل سوال ان مقررہ اوقات میں گیس کی پریشرکے ساتھ فراہمی یا پھر گیس فراہمی کو یقینی بنانے کا ہوگا اس حوالے سے متعلق محکمے اور حکام کی کیا تیاریاں ہیں اگر گزشتہ سال محکمہ سوئی گیس کے جی ایم کی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات اور یقین دہانیوں کے بعد گھریلو صارفین کی مشکلات میں جس طرح کمی نہیں آئی اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ جب اس سطح پر ماموں بنانے کا عمل ہو اور دوسری جانب بے بسی ہی کی تصویر نظر آئے تواس سال تومرکز میں حکومت بھی دوسری ہے جس کے زیر اثر محکمہ ہے بہرحال اس وقت بھی صورتحال کچھ گھمبیر ہی ہوچکی ہے ہمارے نمائندے کے مطابق گھریلو اور چھوٹے کمرشل صارفین کیلئے گیس کے جاری بحران کے بعدٹرانسپورٹ کیلئے بھی پشاور میں گیس کا بحران شدید ہوگیا ہے جاری صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پشاور میں گھریلو صارفین کیلئے گیس دستیاب نہیں اوراکثر علاقوں میں صرف تین گھنٹے کیلئے گیس کی سپلائی ہوتی ہے جبکہ ہوٹلز اور نانبائی کی دکانوں کیلئے بھی گیس کی سپلائی کم کردی گئی ہے محکمہ سوئی گیس کے مطابق سیلاب کی وجہ سے گیس کے ترسیلی نظام میں تعطل کی وجہ سے بحران پیدا ہوا ہے تاہم اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہفتے میں چند دن کیلئے پمپ بند رکھنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی ان کے مطابق فی الحال کسی بڑے بحران کا امکان نہیں لیکن سردی کا موسم شروع ہونے کے بعد گیس کی سپلائی متاثر ہونے کا سو فیصد خدشہ رہے گا۔محولہ عوامل وحالات اور ماضی کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں دیکھا جائے اور خود محکمے کے ذرائع کی جانب سے جن خدشات کا ا ظہارسامنے آیاہے اس کی روشنی میں آمدہ موسم سرما میںمتبادل ایندھن کے حصول کے لئے صارفین کو خود کو تیار رکھنا چاہئے صرف گھریلو استعمال کی گیس ناپید ہی نہیں بلکہ مہنگی بھی ہو رہی ہے مستزاد سلینڈر کی صورت میں صارفین کو ایندھن کے مد میں مزید مالی بوجھ کا بھی سامنا ہوگا۔اس ساری صورتحال میں جو صارفین سولر سسٹم سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں باوجود نیپرا کی جانب سے کٹ لگانے کی تیاریوں کے یہ واحد سہولت ہی رہ گئی ہے کہ وہ شمسی توانائی کو کھانا پکانے کے لئے بھی بروئے کار لائیںحکومت کو اس حوالے سے ابھی سے ضروری ممکن اقدامات کرنے صنعتی صارفین اور سی این جی صارفین کے لئے ابھی سے شیڈول مرتب کرکے اس پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اس سنگین مسئلے کا شافی حل تو کسی کے پاس بھی شاید نہ ہو کم از کم متبادل تیاری ہونی چاہئے ۔
قدرت و فطرت سے ٹکرائو کب تک؟
اس وقت ڈھائی ارب لوگوں کی زہریلی فضاء میں سانس لینے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی اقدار کو خیراباد کہہ دیا ہے درختوں سے دوستی چھوڑ دی ہے۔ہر شہری کم از کم دو پودے لگا کر نسل نو کا تحفظ یقینی بنائیں زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگا کر ماحول کو آلودگی سے پاک صاف ستھرابنایاجاسکتا ہے ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ایک درخت 36 ننھے بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے درجہ حرارت کو بھی کو بھی کنٹرول کرتا ہے دنیا میں گریں گیسوں کااخراج فضائی و آبی آلودگی کے ساتھ ساتھ صوتی آلودگی کی وجہ سے نئے دور کے پیچیدہ اور مشکل مسائل کی شدت میں آئے رز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ انسان کی فطرت سے تصادم اور ان کے علاقوں میں تصرف اور ناجائز قبضہ ہے جس کا سخت رد عمل سیلاب او ربے وقت و سخت ترین بارشوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت ملک کو سیلاب کے باعث کس قدر تباہی کا سامنا ہے اور متاثرہ عوام کی کیا حالت ہے ۔ قدرت و فطرت سے محبت اور اس کی حفاظت ہی میں انسانی زندگی کی بقاء اور صحت و ماحول کا تحفظ پوشیدہ ہے ۔ شہروں کا زرعی آبادی میں قیام جنگلات کا کٹائو اور اس کے رقبے میں مسلسل کمی کا سلسلہ ہی نہیں کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں شہری آبادی کے باعث زمینی وفضائی کثافت میں اضافہ وہ بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے عالمی سطح پر آلودگی میں ہمارا حصہ کتنا ہی کم ہو لیکن بدترین متاثرین ہم ہی ٹھہرے اور آئندہ سال اس سے زیادہ مشکل صورتحال کا اندازہ ابھی سے ظاہر کیا جانے لگا ہے ہم انفرادی طور پر اورکچھ نہ سہی اپنے حصے کا کام بھی اگر کرلیں تو خود اپنے ہاتھوںاپنے تحفظ کاممکنہ انتظام کہلائے گا لیکن بدقسمتی سے ہم اس طرف متوجہ ہی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی طور پر اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے اور اجتماعی و انفرادی ہر سطح پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تاکہ کچھ تو پیش بندی کی امید پیدا ہو۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام