حالات سدھارنے پربروقت توجہ کی ضرورت

کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل سردار حسن اظہر حیات نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں امن کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کارلانے کا واضح حکم دے دیا ہے۔کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل سردار حسن اظہر حیات نے سوات، بونیر اور مردان کے عمائدین کے جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن مالاکنڈ ڈویژن اور سوات کو طالبان کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ جیسے فوج نے ان دہشت گردوں کو صلح کے عمل کی آڑ میں واپس آنے کی اجازت دے دی ہو، ہم نہ صرف اس کی نفی کرتے ہیں بلکہ ہر حال میں ریاست کی رٹ بحال کریں گے۔یہ2022ہے’ 2009نہیں۔ ہم دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ قانون کے مطابق ایکشن لیں گے۔پاک فوج کی دہشت گردی کے حوالے سے خدمات کی کسی تذکرے کی ضرورت نہیں بلکہ قوم سب کچھ اپنے آنکھوں سے دیکھ چکی ہے اور فوج و پولیس کے جوانوں کی قربانیوں کی معترف ہے اور قوم بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ ملکی و قومی سلامتی کے تحفظ کے ذمہ دار سکیورٹی کے ادارے اپنی ذمہ داریوں سے سرمو انحراف نہیں کریںگے ا لبتہ حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت کاموجودہ حالات میں کردار وہ نہیں جو ان حالات میں ہونا چاہئے کور کمانڈر کے بیان میں شاید اشارہ بھی اس طرف ہے بہرحال اس سے قطع نظر کہ ان کی کیا مراد ہے ایک واضح طریقہ کار یہ ہے کہ صوبائی حکومت آئین کے مطابق فوج طلب کرتی ہے قبل ازیں حالات کو قابو میں لانے کے لئے صوبائی حکومت اپنے دائرہ کارمیں حاصل قوت کا استعمال کرکے حالات کو قابو میں لانے کی ذمہ داری نبھاتی ہے اس وقت اگر ایک طرف دیکھا جائے تو حالات ابھی صوبائی حکومت کے قابو سے باہر نہیں ہوئے بلکہ با آسانی قوت کا استعمال کرکے ان حالات پرقابو پایا جاسکتا ہے صوبائی حکومت کو حالات کا کس حد تک ادراک ہے اس حوالے سے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے البتہ گزشتہ روز صوبائی حکومت کے ترجمان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات ختم کرنے کا کوئی فیصلہ نہ ہونے کا بیان ضرور دیا ہے جو شکوک و شبہات کا باعث امر اس لئے ہے کہ دوسری جانب سے حملوں کی باقاعدہ ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے پھر اس صورتحال میں جبکہ بھتہ خوری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ سوات میں پچاس کے قریب طالبان کا مبینہ گروپ کا سامنے آنا اورسوات میں حملوں کا بھی اعلان یہ سب کچھ کیا اس امر کے لئے کافی نہیں کہ دوسری جانب سے باقاعدہ خم ٹھونک کر دعوت مبازرت مل رہی ہے امن عامہ کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے اور آئین کے تحت کمک طلب کرنا بھی وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری اور صوابدید ہے ایسے میں یا تو شرپسندوں کا سرکچل دیا جائے یا پھر کمک طلب کی جائے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی سکیورٹی کے معاملات میں مصلحت کا تقاضا نہیں ہوتے بلکہ حفاظتی اقدامات اور تحفظ امن عامہ کے لئے حفظ ماتقدم ہی بہتر حکمت عملی ٹھہرتی ہے ۔رموز مملکت خویش خسروان دانندکے مصداق اس موضوع سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاک فوج کی قیادت اپنی ذمہ داریوں کو بروقت پورا کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے اور اس کا واضح عندیہ کور کمانڈر کے بیان میں واضح ہے انہوں نے بعض افواہوں اور غلط فہمیوں کی تردید کرکے ریاستی رٹ بحال رکھنے کے حوالے سے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہی ان کی پیشہ ورانہ کردار کا تقاضا ہے دوسری جانب سے اختیار کردہ مصلحت کو سمجھنا مشکل ہے صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کوپانی سر سے اونچا ہونے کا انتظار کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور بروقت اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے اس طرح کے حالات صرف امن عامہ پر ہی اثر انداز نہیں ہوئے عدم تحفظ کا احساس بڑھ جانا بہرحال فطری امر ہے اس کے دیگر عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کے اثرات برسوں تک رہتے ہیں اس رپورٹ میں ان امور کا خاص طور پر احاطہ کیا گیا ہے جس کو پورے صوبے پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو حالات کی عملی تصویر سامنے آتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سوات میں طالبان کے سامنے آنے اور یکے بعد دیگرے دہشتگردی کے واقعات نے سیاحت کی صنعت کو غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار کردیا ہے مٹہ میں طالبا ن کی موجودگی کے باعث سوات میں موجود ہزاروں سیاح واپس لوٹ گئے جبکہ ہوٹلوں میںسینکڑوں کمروں کی بکنگ بھی ختم کردی گئی ہے 2010میں بدامنی کے باعث صرف تین سالوں کے دوران 60ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا تھااس بار یہ معیشت پہلے ہی بدامنی، کورونا، 2010اور اب 2022کے سیلاب سے متاثرہ ہے نیز اس وقت معیشت کو ان تمام چیلنجز کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کے خطرات کا بھی سامنا ہے ایسے میں یہ وقت اس لئے زیادہ نازک ہوگیا ہے کہ تمام چیلنجز ایک ساتھ سامنے آگئے ہیں جس سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اگر سوات اور قبائلی علاقوں میں حالات ایسے ہی کشیدہ رہے تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی چھوڑ جائینگے اور مقامی سرمایہ کار بھی یہاں سے کوچ کرجائینگے جس کا براہ راست نقصان مقامی آبادی اور بعد ازاں پورے ملک کو پہنچے گا۔ اس نوشتہ دیوار کوپڑھ لینا چاہئے اور صوبے میں حالات دگر گوں ہونے سے قبل ممکنہ بروقت اقدامات میں لیت و لعل کامظاہرہ نہیں کیاجانا چاہئے قبل اس کے کہ تاخیر ہوجائے اور ہاتھوں سے لگائی گئی گرہ دانتوں سے کھولنے کی نوبت آئے راست اقدامات کا فیصلہ کرلینا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟