پٹرول نایاب

جمعے کی شام ایک میٹنگ سے واپسی پر گاڑ ی کے فیول کی سرخ بتی نے اعلان کردیا کہ پٹرول ڈلوایا جائے ورنہ کسی بھی موڑپر دھکا لگانے کی نوبت آسکتی ہے ۔ آج کل پٹرول بھروانا یوں بھی بڑا اذیت ناک احساس ہوتا ہے ۔ کبھی دو ہزار میں ٹنکی آدھی بھروالی جاتی تھی مگر اب شرمندہ شرمندہ چند لٹر پٹرول ہی ڈلوایا جاسکتا ہے چاروناچار نزدیکی پٹرول پمپ پر مڑنے سے پہلے ہی نوجوان نے ہاتھ سے اشارہ کردیا کہ ”پٹرول نشتہ ”اگلے اسٹیشن پر بھی یہی حال تھا ۔ پی ایس او میں مڑے تو موصوف نے بہانہ بنایا کہ ابھی پٹرول کا ٹینکر پہنچا ہے سو ناچار گھر کی راہ لی اس دعا کہ ساتھ کہ یااللہ بقیہ پٹرول میں برکت ڈال دے کہ گھر تک پہنچ جاؤں اور دعا قبول ہوگئی ۔ صبح اخبار میں پڑھا کہ اوگرا کی پٹرول کی قیمت بدلنے کی سمری وزیر اعظم کی ٹیبل پر پڑی تھی اور قیمتوں میں تبدیلی متوقع تھی لیکن میںمیاں شہباز شریف کی مصروفیت کی وجہ سے سمری پر دستخط نہ ہوسکے ۔ البتہ آج صبح پٹرول دستیاب تھا ۔ سمری پر دستخط ہوجانے پر کیا گل کھلتا ہے اور ہماری قسمت کا کیا فیصلہ آتا ہے اور اگلی ٹنکی کس ریٹ میں بھروانی پڑتی ہے۔شنید ہے مبلغ 8پیسے پاکستانی کہ جس کے نصف چار پیسے ہوتے ہیں ،پٹرول کی قیمت کم کردی گئی ہے ۔یعنی 12.5لٹر بھروائیں تو آپ کومبلغ ایک روپے کی بچت ہوجائے گی یعنی کہ مزے ہی مزے ۔ سوال یہ ہے کہ اس زحمت کی بھی کیاضرورت تھی۔ اس تمہید کا مطلب صرف اتنا ہے کہ پٹرول کے نرخ تو بدلتے رہتے ہیں لیکن ان پٹرول پمپوں پر عوام جو خوار ہوتے ہیںاس میں عوام کا کیا قصورہے ۔ میرے ساتھ اس شام کتنے لوگ اپنی کاروں اور بائیکس پر پٹرول کی تلااش میں سرگرداں تھے ۔ اکثر گاڑیوں اور بائیکس پر لوگ فیملی کے ساتھ تھے ۔کیا شہر کے سارے پٹرول پمپ اچانک آؤٹ آف سٹاک ہوسکتے ہیں ؟ یقینا نہیں ۔تو کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں کہ ان پٹرول پمپ مالکان سے پوچھ سکے کہ جس شہر میں آپ روزگار کرتے ہواور ماہوار لاکھوں روپے کماتے ہووہ انہی شہریوں کے پٹرول خریدنے کی وجہ سے ہے ۔روزگار میں تو قیمتیں بڑھتی گھٹتی ہیں مگر عوام کو دھکے کھانے پر کیوں مجبور کرتے ہو۔ یہاں انتظامیہ کا رول بڑا اہم ہے جورول ایسے موقعوں پر دکھائی نہیں دیتا ۔ اور عوام رل جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے اب پٹرول پمپ مالکان غریب اور نادار لوگ تو ہوتے نہیں بلکہ باثر اور صاحب ثروت لوگ ہوتے ہیں اب انتظامیہ ا ن سے کیا پنگا لے اس لیے عوام کو دربدر ہونے پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے کیونکہ عوام پر زور نکالنا یوں بھی سب سے آسان طریقہ ہے ۔ آئی ایم ایف کا زور ہوتو عوام پر نکلے ۔ مہنگائی کا زور ہوتو عوام پر نکلے ۔ اوپر خرچے کم نہ ہوں گے مگر قربانی کے لیے عوام کی گردنیں ہمیشہ حاضر رہیں گی ۔ عوام بے چارے کریں بھی توکیا ۔ہمیں تو اب صبر کرنے کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ سوائے صبر کے اور کچھ نہ تو سوجھتا ہے ہی کوئی دوسرا رستہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ کسی کو کیا پتہ کہ کون سے پٹرول پمپ کا گیج ٹھیک ہے اور کون سا پٹرول پمپ کم پٹرول ڈالتا ہے ۔ میں خود راستے میں آنے والے بہت سے پمس کو نظرانداز کرکے خاص پمپس سے پٹرول بھرواتا ہوں کیونکہ بعض پمپس کو میں تجربے سے ریجیکٹ کرچکا ہوں کیونکہ ان کا پٹرول گیج کم پٹرول ڈالتا ہے ۔ یہاں بھی انتظامیہ کا رول بڑا اہم ہے ۔ میں نے تو کبھی ان پمپس کے گیج کی جانچ پڑتال کرتے کسی کو نہیں دیکھا ۔سبزیاں ،فروٹ من مانی قیمت پر فروخت تو عام سی بات ہے ۔سیلاب کی تباہ کاریوں کی ماری قوم کا بیڑہ تو پہلے غرق ہوچکا ہے ۔ ہر چیز کے نرخ کو آگ لگی ہوئی ہے ۔ تنخواہ دار وں کے تو کانوں سے سچ مچ کے دھوئیں نکل رہے ہیں ۔سوچتے ہیں کہ چلو ان بیچاروں سے تو پھر بھی االلہ نے اچھا رکھا ہے کہ جن کے گھردریاؤں کے ساتھ بہہ گئے ہیں ۔ اور سندھ کے لوگوں کے دیہاتوں سے پانی اترنے کا نام نہیں لے رہا ۔نہ پانی پینے کامیسر نہ ہی لقمہ حلال میسر نہ چھت سر تنی ہوئی ۔ عوام کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نہ تو سول سوسائٹی اتنی جاندار ہے اور نہ ہی کنزیومریونیٹی موجود ہے ۔ مغرب میں کنزیومرکو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ ہمارے یہاں ٹریڈ کے سب سے اہم حوالے کنزیومر کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے ۔ اسی لیے ہر جگہ کنزیومر ہی خوار ہوتا ہے ۔ تندور والی ہڑتال کریں تو انتظامیہ اور تندور یونین کے مزاکرات ہوتے ہیں اور بالآخر روٹی کے نرخ بڑھانے پر اتفاق کرلیا جاتا ہے ۔ انتظامیہ اس پر خوش کہ ہڑتال ختم کروالی اور نانبائی یونین اس پر خوش کہ ہڑتا ل کامیاب ہوگئی لیکن کنزیومر کو نہ تو کسی اجلاس میں بلایا گیا نہ ہی مشورہ ہوا نہ ہی فیصلے میں اس کی کوئی حیثیت اہمیت شامل رہی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی ریوڑ کے فیصلے کیے جاتے ہیں ہمارے یہاں عوام سے متعلق ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں ۔ عوام بھی ہمارے ایسی صوفیانہ صفات کے مالک ہیں کہ بارش دھوپ میں خوش خوشحال رہتے ہیں ۔کنزیومر کے حقوق سے کسی کو واقفیت نہیں ۔ شاید ہی میرے قارئن میں سے کسی کو علم ہو ایک باقاعدہ کنزیومر کورٹ کنزیومر کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے ۔ آپ کسی دکاندار ، برانڈکی بددیانتی پر بڑے آسان طریقے سے کیس فائل کرسکتے ہیں ۔جج آپ کے کیس کو سن کر آپ کے حق میں فیصلہ بھی دے سکتا ہے ۔ لیکن کہا نہ کہ ہم عوام صوفی لوگ ہیں ۔ میں جس جس پٹرول پمپ پر گیا اس اس پٹرول پمپ کی ویڈیو بنا کرمتعلقہ اداروں کو بھیج سکتا تھا۔ لیکن چوہدری شجاعت حسین کی زبان میں یہی سوچا مٹی پاؤ میں اکیلا تو نہیں جو پٹرول کے سرگزداں ہورہا ہوں ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو پریشان ہیں ۔ جب ایسی حالت ہوگی تو تبدیلی کیسے آئے گی کیونکہ تبدیلیاں حکومتیں یا ادارے نہیں لاتے بلکہ یہ تبدیلی عام کے ذہن سے جنم لیتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے