گفتگو میں کوئی منطق نہ دلیل

کس کس کا منہ بند کریں گے؟ آج سوشل میڈیا جس طرح بے لگام ہوچکا ہے یا کردیا گیا ہے اس کی ذمہ داری بھی کس پر؟ کل جب پنجاب میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت تھی تو ترقیاتی سکیموں پر لیگ نون کے رہنمائوں کی تصاویر والے اشتہارات کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا گیا اور یہ کہہ کر کہ اشتہارات پرعوام کے ٹیکسوںکا پیسہ لگایا جاتا ہے ‘ جو بقول تحریک انصاف والوں کے لیگی حکومت کے ۔۔ کا پیسہ نہیں ہے ‘ اس لئے ان اشتہارات پر میاں برادران اور دیگر حکومتی وزراء کی تصاویر لگانا غیر قانونی ہے ‘ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے لیگ نون کی حکومت کو پابند کیا کہ وہ سرکاری پیسے سے ”ذاتی تشہیر” نہ کریں ‘ اس کے بعد کے منظر نامے پر ذرا غور کریں تو جب تحریک انصاف خود وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار آئی تو کچھ عرصہ تو خیر خیرت رہی مگر پھر اس نے بھی”نقل کفر ‘ کفر نہ باشد” کے کلئے پر عمل کرتے ہوئے سرکاری اشتہارات کو اپنی تصویروں سے بھرنا شروع کردیا ‘ اس وقت کسی نے ان سے پوچھنے کی زحمت(یا جرأت) نہیں کی کہ اب یہ پیسہ کس کا ہے جو ذاتی تشہیر پر بے دریغ لٹا رہے ہو ‘ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ اقتدار سے اترنے کے باوجود جس طرح صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے ‘ اس پر سوشل میڈیا پر سوال اٹھائے جارہے ہیںہیلی کاپٹر صوبہ کے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے خریدا گیا ہے ‘ اس میں خرچ ہونے والا پٹرول اس کی دیکھ بھال (Maintenance) پراٹھنے والے اخراجات ‘ عملے کی تنخواہیں ‘ سب عوامی خزانے سے حاصل کیا جاتا ہے ‘ مگر بعد جس طرح (بقول معترضین ) چنگ چی رکشہ کی طرح استعمال کرنا شروع کیاگیا ہے ‘ساتھ ہی دعوے ریاست مدینہ کے کئے جارہے ہیں ‘ اس پر تو اس قسم کے سوالات کا اٹھنا بالکل فطری عمل ہے حالانکہ ریاست مدینہ کے خلیفہ کو اپنے لباس کے حوالے سے بھی برسر منبر جوابدہ ہونا پڑا تھا ‘ تو پھر یہ میرا تیرا کہاں سے آگیا کہ وزیر اعلیٰ کی مرضی ہے جسے سوار کرائیں ‘ ایک پوشاک کی وضاحت دیتے ہوئے خلیفہ اول نے یہ نہیں کہا تھا کہ میرا لباس ایک چادر سے نہیں بنتا تھا اس لئے دوسری چادر لینا میری مرضی تھی’
گفتگو میں کوئی منطق نہ دلیل
کیوں مچاتے ہو بہت شور’ میاں
ناک کوپکڑنے کے عمل کو ”ماہرین” نے ایک دوسری شکل دے رکھی ہے ‘ یعنی ایک تو سیدھا سیدھا بس اپنی انگلیوں کو ناک پر رکھو ‘ جبکہ دوسرا طریقہ ہاتھ کو گردن کے پیچھے سے گھما اور آگے لا کر ناک کو پکڑ لو ‘ ماہرین”ناکیاں” اس طریقے کو”واردات” کے لئے سامنے والے سہل طریقے سے بھی زیادہ کارآمد سمجھتے ہیں اور وہ یوں کہ محاورے کے مطابق سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ‘ تو”جس” کوچاہے سرکاری اڑن چنگ چی” پر بٹھانے کے لئے وزیر اعلیٰ خود بھی ایسے مواقع پر سوار ہو جاتے ہیں ‘ تاکہ ”جس” غیر متعلقہ شخص کو”غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر” جھولے جھلائے جارہے ہیں ‘ ان پر اعتراض نہ کیاجائے ‘ ویسے اس قسم کی وضاحتیں پہلے کب”جواب سے مستفید فرمائیں” کے الفاظ سے شرمندہ تعبیر ہوچکی ہیں کہ اب ہوں گی بقول مرزا غالب
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سربہ گریباں کہ اسے کیا کہئے
انگریزی زباں کا ایک ناول ہے دی اینمل فارم ‘ جس کا آسان زبان میں ترجمہ جانوروں کا باڑہ کیا جا سکتا ہے ‘ اس فارم میں رہنے والے جانور ایک قانون بناتے ہیں ‘ فارم کا سربراہ قانون بناتے ہوئے اپنے لئے ایک جبکہ باقی جانوروں کے لئے علیحدہ قانون بناتا ہے اور اس صورتحال کی تاویل دیتے ہوئے وہ کہتا ہے ۔
(All enimals are equal but some are more equal than others)یعنی تمام جانور برابری ہیں لیکن کچھ ذرا زیادہ ہی برابر ہیں۔اب ہم یہ تو نہیں کر سکتے کہ اپنے معاشرے کو”جانوروں کے باڑے” سے تشبیہ دے دیں تاہم کیا کیا جائے کہ اس”بارے” میں رہنے والے تمام جانور کچھ خاص جانوروں کی برابر کا دعویٰ کرنا تو کجا سوچ بھی نہیں سکتے ‘ دی اینمل فارم جس زمانے میں لکھا گیاتھا ‘ اس سے کچھ پہلے ہی علامہ اقبال نے یہ بھی تو کہا تھا کہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کوگنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اور اگر غور سے دیکھا جائے تو علامہ صاحب مرحوم نے ہمارے معاشرے کو دی ایمنل فارم ہی قراردے کر واضح کر دیا تھا کہ وہ جو چند افراد جنہیں گننے کی قطار سے نکال کر تولا جاتا ہے وہ اینمل فارم کے سربراہ کے بقول (Some are more equal کے زمرے میں آتے ہیں اس لئے وہ جو چاہیں کریں ‘ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں اس پر ہمارے اپنے ہی شعر کا دوسرا مصرعہ فٹ بیٹھتا ہے ‘ پورا شعر یوں ہے
عشق وحسن سب فانی ‘ پھر غرور کیا معنی
کس شمار میںہم ہیں ‘ کس قطار میں تم ہو

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد