ہوشیار ! آگ میں ہے یہ جنگل گھیرا ہوا

شاعر نے کہا تھا ؛
شہر میں راج ہے درندوں کا
آئو کہیں جنگلوں میں جا تے ہیں
لیکن شہری درندے اب اتنے زیادہ طاقتور بن چکے ہیں کہ جنگلات بھی شہری درندوں کی دستبرد سے محفوظ نہیں اِمسال مئی کے مہینے سے لے کر جون کے آخر تک کوہِ سلیمان سے لے کر وزیری سواتی اور ہزارہ کے جنگلات کو بڑی بیداری سے نذرِ آتش کر دیاگیا۔جنگلی حیات ختم کردی گئی اور ہر یے بھرے پہاڑ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ۔ قومی دولت کو جس ڈھٹائی کے ساتھ برباد کردیا گیا اور آگ لگانے والوں کا کسی نے بال بھی بیکا نہیں کیا اِن حالات میں سیلاب نہیں آئیں گے اور بادل نہیں پھٹیں گے تو کیا باِدِ بہاری کے جھونکے چلیں گے اور آسمان سے من وسلویٰ اتریں گے؟
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کومعاف
ہمارے صوبے کے جنوبی اضلاع میں وادی لواغر کے بلندو بالا پہاڑ گھنے جنگلات سے ڈھکے ہوئے تھے اِن جنگلات اور حسین نظاروں کی اہمیت کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خوشحال خان خٹک نے اپنی شاعری میں سوات کے نظاروں پر لواغر کے نظاروں کو ترجیح دی تھی ۔ یہ جنگلات زیتون ، شیشم پلائی اور بیسیوں قسم کے دیگر دیوقامت اشجار میٹھی گھاس طب میں اِستعمال ہونے والی جڑی یوٹیوں اور موسِم بہار میں چمبیلی ، رامبیل اور شمشاداور پیغمبری پھول کے لیے مشہور تھے ۔یہ گھنے جنگلات جنگلی حیات کے لئے بہت بڑی پناہ گاہ تھی۔ مار خور ، اڑیال اور ہرنوں کے جھنڈہی جھنڈ تھے ۔ چرند، پرنداور درند کی کثرت تھی۔ پرندوں میں شاہین چکور، تیتر ،کالے تیتر ،سیسی اور کبوتروں کی کثرت کی وجہ سے یہ بہت بڑی شکارگاہ تھی ۔ ایسے ایسے خوبصورت اور خوش آواز پرندے ملتے تھے کہ جو کسی اور علاقے میں نہیں دیکھے گئے تھے جن کے نام بھی کسی کو معلوم نہیں تھے ۔ آج وہ پرندے نایاب ہوگئے ۔ گھنے جنگلات کی وجہ سے پوری وادی میں بروقت بارشیں ہوتی تھیں بارانی زمینیں سونا اگلتی تھیں ۔ وادی لواغر کے لوگ اقتصادی لحاظ سے خوشحال اور ہر شعبے میں خود کفیل تھے۔ لوگ مال مویشی پا لتے تھے ۔ لوگ ان پڑھ تھے مگر ان کو جنگلات کی اہمیت معلوم تھی ۔وادی لواغر کے ہر گائوں میں جنگلات کی حفاظت کیلئے مقامی فعال کمیٹیاں تھیں۔ کوئی بلاضرورت ایک تنکا بھی نہیں توڑ سکتا تھا۔ اگر کوئی سہواً یا قصداً جنگلات کو نقصان پہنچانے کا مرتکب پایاجاتا تو کمیٹی والے نقصان کرنے والے پر بھاری نقدی کی صورت میں جرمانہ عائد کرتے تھے اور نقصان کرنے والا گائوں کے پچاس لوگوں کوایک وقت کا کھانا بھی کھلاتا تھا۔یہ نظام صدیوں سے رائج تھا اس کو مقامی زبان میں نوغہ کہا جاتا تھا ۔ جنگلات کے تحفظ کا یہ ایک خود کار رضا کا رانہ نظام تھا ۔ محکمئہ جنگلات کا عمل دخل نہ ہونے کی وجہ سے یہ جنگلات سو فیصد مخفوظ رتھے۔ اِن گھنے جنگلات میں پہاڑی پھلوں پہاڑی سبزیوں اور مزری کی بہتات تھی۔ یہ ایک جنت نظیروادی تھی ۔اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی ملک میں ایک نو دولتیہ طبقہ پیدا ہوا۔ اس طبقے نے تمام پرانی اقدار کو پامال کیا۔ جنگلات کو متعد د بار نذرآتش کردیاگیا۔سیاحت کے لحاظ سے ہمارے پورے صوبے میں سو کہ دیوی جیسا خوبصورت مقام نہیں ملے گا یہ ایک صحت افزا مقام تھا۔ جو اس پورے علاقے کی پہچان تھی اِس سال اس بلند چوٹی کے گھنے جنگلات کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا ۔ جس وقت صوبے کے شمال میں جنگل سوزی کا دھندا جاری تھا عین اسی وقت وادی لواغر کے جنگلات آگ کے بے رحم شعلوں کی لپیٹ میں آگئے مقامی لوگو ں نے اپنی جانوں پر کھیل کر آگ پر قابوپانے کی کوشش کی مگر بے سود اور اب بقول غالب
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھریادآیا
صدیوں سے ہمارے بزرگوں نے قومی دولت کی حفاظت ایک مقدس امانت کے طور پر کی تھی۔ اور آنے والی نسل کا مستقبل محفوظ کیا تھا ۔مگر بدبخت نسل نے اپنا مستقبل ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
پہلے اس نے مس کہا پھر تق کہا پھر بل کہا
کس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کردئیے
جنگلات کی تباہی کے نتیجے میں ہماری آنے والی نسلوں کو شدید مصائب کا سا منا کرنا پڑے گا بقول احمد فراز
اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے
اِس شہر پر اتریں گے عذاب اور طرح کے
اب پوری وادی بے رحم غربت کی لپیٹ میں ہے
گندم کی جگہ کھیت میں اب بھوک اگے گی
اس دور کے انسان سے زمین روٹھ گئی ہے
او ر آخر میں :
بیدار اہل قافلہ سونے کے دن گئے
ہوشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھیرا ہوا

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج