جنگل میں مورناچا ‘ کس نے دیکھا؟

وہ جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ یہ نہ دیکھو کون کہتا ہے ‘ یہ دیکھو کیا کہتا ہے تو یہ جوکچھ صوبائی حکومت نے صوبے کے حقوق کے حوالے سے وفاقی حکومت کے طرز عمل کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ اور بھی آپشنز استعمال کرنے کی بات کی ہے تو یہ بات دل کو اچھی لگی بلکہ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”موگیمبو خوش ہوا”صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے گزشتہ روزمیڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگروفاقی حکومت نے پن بجلی منافع ‘ اور ضم شدہ اضلاع کے لئے فنڈز جاری نہ کئے تو صوبائی حکومت اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے سمیت دیگر آپشنز بھی استعمال کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران شوکت ترین کی کوششوں سے صوبائی حکومت کوپن بجلی منافع کے بقایا جات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ماہانہ بنیادوں پر منافع ملنا شروع ہوا تھا لیکن وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد گزشتہ چھ مہینے سے صوبائی حکومت کو پن بجلی منافع نہیں مل رہا ‘ جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران صوبے کو پن بجلی منافع کی مد میں 18 ارب روپے کم ملنے کا امکان ہے ۔ ادھر صوبائی اسمبلی کے اندر اپوزیشن ارکان اور حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے جملہ ممبران”ایک پیج” پرآگئے ہیں اور وفاق سے پن بجلی منافع اور ضم اضلاع کے فنڈز واگزار کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ دوسری جانب ایک اور خبر بھی سامنے آئی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو ٹول ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے ۔
کار حیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
الجھے توپھر سلجھ نہ سکے تارزیست کے
اردوادب میں ایک بہت پرانی کہانی ہے ”قصہ سوتے جاگتے کا” اسے اگر تھوڑا سا تبدیل کرکے یوں کردیا جائے یعنی قصہ ہنستے رونے کا ‘ تو کیامضائقہ ہے ‘ جی ہاں اوپر کی سطور میں ہم نے موگیمبو خوش ہوا والا بھارتی فلم کا مشہور ڈائیلاگ اس لئے لکھ دیا تھا کہ صوبائی وزیر خزانہ کے ”دبنگ” اعلان نے تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی ہمیں موگیمبو بنانے میں مدد دی مگر ہنسنے کے بعد ہمیں اس مور کی صورت رونے پربھی مجبور کر دیا ‘ جواپنی خوبصورتی دیکھ کرفرط مسرت سے بے اختیار ناچنے پرآمادہ ہو جاتا ہے اور اس رقص بے خودی سے سرشار ہوکرجب وہ تھک جاتا ہے تو رک کر سانس لینے کے دوران کی نظریں اپنے پائوں پر پڑتی ہیں توان کی بدصورتی دیکھ کر اس کے دل سے اک ہوک سی اٹھتی ہے اور اس کے آنسو گرنا شروع ہو جاتے ہیں ہماری کیفیت بھی اسی روتے بسورتے مور کی مانند ہے جس کے بارے میں کہاوت ہے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ صوبائی وزیر خزانہ کے اس ”رقص بسمل” کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم فرحی نے ویسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ
شہر میں صرف رقص بسمل ہے
مور جنگل میں ناچتا ہوگا
جی ہاں ‘ پشتو میں بھی توایک کہاوت ہے کہ ھغہ مچئی دہ سوات دی چہ غل سے شہد دی’ یعنی وہ مکھیاں سوات میں ملتی ہیں جوشہد بناتی ہیں ‘ صورتحال یہ ہے کہ ہماری سیاست اتنی بے رحم کیوں ہے کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت ایک پیج پر ہو’ یعنی دونوں جگہ ایک ہی پارٹی برسر اقتدار ہو تواس ضرب المثل کوبھی”ہضم” کرلیاجاتا ہے یعنی کڑوا کڑوا تھو تھو ‘مٹھامٹھا ہیپ ہیپ ‘ صوبہ خیبر پختونخوا اور وفاق میں جب تک تحریک انصاف ہی برسراقتدار تھی تو ہمیں یاد بھی ہے اور ہمارے کالم اس دور میں یہی گواہی دینے کے لئے ریکارڈ پر ہیں کہ بطور وزیراعظم عمران خان سے جب بھی صوبے کی بجلی کے خالص منافع دینے کامطالبہ کیا جاتا توایک اور پشتوکہاوت کے مطابق وہ ”ایک بڑا بچہ بغل میں دے کر” صوبائی حکومت کو یقین دلا دیتے کہ بس منافع کی رقم آئی کہ آئی ‘ مگر کچھ ہی ہفتوں یا مہینوں کے بعد ایک بارپھر”منافع ‘ منافع” کی گردان شروع ہوجاتی ہم اس وقت بھی تواترکے ساتھ صوبے کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس ناروا سلوک پر قلمی احتجاج کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے اس مطالبے میں شامل ہوتے رہتے ۔( ہم اب بھی اس کی بھر پور تائید کرتے ہیں اس لئے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری سوچ بدل گئی ہے’ کیونکہ ہم یوٹرن کے قائل نہیں ہیں) تاہم جیسے ہی وفاق میں حکوت بدل گئی ہے ‘ صوبائی وزیرخزانہ شوکت ترین کی انہوں نے تعریفوں کے پل باندھنا شروع کردیئے ہیں ‘ انہی شوکت ترین نے مبینہ طورپرانہیں آئی ایم ایف کوشکایت لگانے پر اکسا کرملک کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش بھی کی ہے ‘ جس پر اب تازہ خبروں کے مطابق ایف آئی اے نے دونوں کو وضاحت کے لئے طلب کرلیا ہے ‘ خیر اس سے قطع نظر کہ یہ الزام ثابت ہوتا ہے یا نہیں ‘ صوبائی وزیر خزانہ سے یہ سوال توبنتا ہے کہ جب مرکز میں بھی تحریک انصاف برسراقتدار تھی تو تب صوبائی اکابرین کو صوبے کے حقوق کی بازیابی کا خیال کیوں نہیں آیا ‘ اور وہ بس کبھی کبھی ایک مطالبہ کرکے وہاں سے وعدوں کے لالی پاپ چوسنے تک کیوں محدود رہتی تھی ‘ مسئلہ صرف پن بجلی کے خالص منافع کا نہیں پن بجلی کے مقرر کردہ کوٹہ ‘ قدرتی گیس کو آئین کے تحت ترجیحی بنیادوں پرپہلے صوبے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد دوسرے صوبوں کودینے اورساتھ ہی اس کے منافع کی ادائیگی وغیرہ کا بھی ہے’ مگر گیس پر(بجلی کی طرح) ناجائز قبضے اور صوبہ خیبر پختونخوا کے جائز حق کے برعکس دوسرے صوبوں کو ”ترجیحی بنیادوں” پر اس کی فراہمی کے لئے مبینہ طور پرمیانوالی میں اس کی ڈسٹری بیوشن سسٹم کوفعال کرنے کے خلاف بھی احتجاج بنتا ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ سال سردیوں کے آغاز میں سوئی گیس حکام نے وزیر اعلیٰ کوجس طرح تین دن میں گیس پریشر درست کرنے پرآمادہ کیا ‘ وہ ٹرک اپنی بتی سمیت خدا جانے کہاں گم ہوچکا ہے اور اب توباقاعدہ اعلان کر دیاگیا ہے کہ اب کے سال سوئی گیس بھی قسطوںمیں ملے گی۔ توبقول شاعر
دل کے ٹکڑوں کوبغل بیج لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کابھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''