کیا فوری انتخابات کی ضرورت ہے ؟

الیکٹرانک میڈیا پر تحریک انصاف کے رہنما فوری انتخابات کو مُلکی مسائل کا حل قرار دے رہے تھے ،ایسے میں دوسرے چینل پر سیلاب زدگان کو اپنے مسائل کا رونا روتے ہوئے دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے کہہ رہے ہوں ” خان صاحب !! ہم ڈوب رہے ہیں اور آپ ساحل پہ کھڑے الیکشن کی دوہائی پکار نے میں مگن ہیں۔ پہلے ہمیں بچاؤ ۔۔ اقتدار تو آپ کو جیسے تیسے مل ہی جانا ہے ”۔ ایک طرف سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور ابھی تک بہت سی بستیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت بس ایک ہی مطالبہ کر رہی ہے کہ مُلک میں نئے انتخابات کا جلد اعلان ہو۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت پنجاب، خیبر پختونخوا ، بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مرکز میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔سیلاب کی تباہی سے جڑے مسائل اور ان کو حل کرنے کے معاملات خاصے توجہ طلب ہوتے ہیں ۔اول توقدرتی آفات کا سامنا کرنا اور اس کے نتائج پہ قابو پانا بڑامشکل کام ہے ،ایسے میں حکومت کے لیے عام انتخابات کا انعقاد ہر گز آسان نہیں ۔ سیلاب کی زدمیں آنے سے پہلے ہی عوام مہنگائی کی پکڑ میں ہیں بلکہ اس نے مُلک بھر میں سیاسی اور معاشی بحران پیدا کر رکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد نے تھوڑے سے وقت کے لیے اقتدار تو حاصل کر لیا مگر ان کے پاس بھی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو معمولی سی آسانی فراہم کرنے کا کوئی پروگرام دکھائی نہیں دیتا۔ سیلاب کی تباہی اور مُلک بھر میں جاری مہنگائی سے نمٹنا اتنا آسان نہیں کہ اب امن و امان کی صورتحال بھی بگڑ رہی ہے اور کہیں کہیں شر پسند عناصر پھر متحرک ہو رہے ہیں ۔ گزشتہ چند دِنوں میں کئی ایسے افسوسناک واقعات پیش آئے جس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ، معاشی بد حالی اور سیلاب سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کو دیکھ کرشرپسند کسی سازش میں مصروف ہیں۔ان حالات میں تما م سیاسی جماعتوں کے رہنما بالکل سنجیدہ نہیں ہیں ، اُنہیں صرف اور صرف اپنے اقتدار سے دلچسپی ہے اور اسی کے گرد اُن کی ساری سیاست گھومتی ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ ، ذات پر طعنہ زنی اور عوام کو احتجاج پر اکسانا ، اہل سیاست کا انتہائی غیر سنجیدہ اور قابلِ مذمت رویہ ہے۔ گو کہ اقتدار سے اچانک محرومی ابھی تک تحریک انصاف کے حواس پر چھائی ہوئی ہے مگر ان کے رہنماؤں نے اس کمال سے گریہ ٔ و زاری
کی کہ انہیں عوام کی پذیرائی حاصل ہے۔ اب وہ فوری انتخاب کے لیے بضد ہیں کہ انہیں نہ صرف ایک اکثریت حاصل ہو گی بلکہ نیا منتخب وزیر اعظم ہی نومبر کے مہینہ میں نئے آرمی چیف کی تعنیاتی کا فیصلہ کرے گا۔ اگر الیکشن نہ ہوئے جس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو پھر موجودہ وزیر اعظم اپنا یہ آئینی فرض ادا کریں گے لیکن اہل سیاست اور میڈیا نے اس تعنیاتی کے معاملہ کو سر عام کر کے لوگوں کے لیے تفریح طبع کا باعث بنا دیا۔ اس حوالہ سے ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی تجزیاتی خبر کی سرخی یوں جمائی ہے کہ ” ڈوبتے پاکستان میں اپنے چیف کی تلاش ”۔ اب موجودہ حالات کے پیش نظر تو یہی بہتر تھا کہ تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کردیا جاتا مگر اتحادی حکومت ریاست کو دیوالیہ نہ ہونے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مشکل فیصلوں کا سوچنے لگی۔ اسی باعث مہنگائی کا ایسا طوفان اُٹھا جس نے موجودہ حکومت کو بڑی مشکل میں ڈال دیا اور ان کی مقبولیت بھی پہلے جیسی نہ رہی۔
پاکستانی معیشت جوپہلے ہی غیر مستحکم تھی ، سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل نے اس کی بد حالی میںاضافہ کر دیا ہے۔ معیشت کی اس تباہی کی وجوہات معلوم ہیں مگر اہل سیاست معاشی استحکام پیدا کرنے اور معیشت کو سیاست سے پاک کرنے کی بجائے اپنے اپنے سیاسی مفادات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ یہ سب اس ابتری کے ذمہ دار ہیں لیکن آج سارا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ اقتصادی میدان میں ہمیں ایک قومی یکجہتی کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم اس مشکل سے کسی صورت نہیں نکل سکتے۔ جس کے لیے اہل سیاست کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ مل بیٹھیں اوراس مہنگائی میںا ہل وطن کے لیے آسانی کی راہ نکالیں۔ ٹھوس اور مشکل اقدامات کیے بغیر مُلک کی اقتصادی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی ۔ایسا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔ اتحادی ڈرتے ہیں کہ ایسے اقدامات ان کے لیے آئندہ انتخابات میں مشکل کا باعث بن سکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف اب اپنی مصلحت کے تحت وقت سے پہلے الیکشن اور پھر معیشت یا کسی دوسرے مسّلہ پر بات کرنے کو تیار ہے۔ اہل سیاست کا یہ طرز عمل نامناسب ہے، ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والوں سے کیا توقع رکھیں کہ فوری الیکشن کے بعد وہ حسن اخلاق کی اعلیٰ مثالیں پیش کریں گے۔ ابھی تومہنگائی کی وجہ سے حکومت کی الجھنوں اور ناکامی کو تحریک انصاف اپنی سیاست کی کامیابی سمجھتی ہے لیکن معیشت کی یہ تباہ حالی انہیں بھی آسانی سے حکومت کرنے نہ دے گی۔ اس لیے فوری الیکشن کی بجائے موجودہ مُلکی صورتحال کے پیش نظر پہلے مسائل حل کرنے کو ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر مستحکم سیاسی و معاشی حالات میں الیکشن کا انعقاد کسی سیاسی جماعت کی حکمرانی کا خواب تو پورا کر سکتا ہے مگر عوام کی خوشحالی ممکن نہیں ۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد