سیلاب کا المیہ اور عالمی برادری کا کردار و عمل

وزیراعظم شہباز شریف پاکستان میں سیلاب سے جنم لینے والے المیے اور تکالیف کو دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پربیان میں کہا کہ دنیا کو پاکستان میں سیلاب سے پیدا ہونے والے انسانی المیے اور مشکلات سے آگاہ کروں گا۔انہوں نے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور دو طرفہ ملاقاتوں میں ان مسائل پر پاکستان کا کیس پیش کروں گا جن پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سیلاب سے متاثرہ آبادی کی مدد اور بحالی کی مساعی میں عالمی برادری اور بین ا لاقوامی اداروں کی معاونت غیر معمولی طورپراہم ہے حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان آکر صورتحال کا بچشم خود ملاحظہ فرما گئے ہیں بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر دوست ممالک متاثرین کی مدد میںاپنا حصہ ڈال رہے ہیں مگرجس بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے اور ملک کے ایک بڑے حصے کی آبادی سے لیکر زراعت و معیشت سب کچھ سیلاب کی زد میں آیا ہے اس مناسبت سے جتنا بھی تعاون ہو کم ہونا فطری امر ہے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ملکی تاریخ کے بدترین انسانی المیے سامنے آرہے ہیں اورمزید سامنے آنے اور آئندہ بھی اس کے منفی اثرات باقی رہنے کا پورا امکان ہے ایک اندازے کے مطابق ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی براہ راست متاثر ہوئی ہے بالواسطہ متاثرین کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی پوری آبادی اس کی معیشت و زراعت و صنعت سمیت سبھی شعبے متاثر ہوئے ہیں سات لاکھ 65 ہزار کے قریب گھرمنہدم ہو چکے ہیں تیرہ ہزار کلو میٹرسے زائد کی سڑکیں تباہی سے دو چار ہوئیں چالیس لاکھ ایکڑ پرکھڑی فصلوں کا 80 فیصد بلکہ 90فیصد تک کا نقصان ہوچکا ہے ساڑھے نو لاکھ کے قریب قیمتی مویشی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں متاثرہ علاقوں میں شہری آبادی ‘ دیہی آبادی کو درپیش مشکلات خاص طور پر صحت و خوراک اور رہائش جیسے بنیادی ضروریات اور مسائل کوئی پوشیدہ امر نہیں بدقسمتی سے بجائے اس کے کہ ان میں کمی آئے حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں ان چیلنجز سے پاکستان اپنے وسائل سے نمٹ نہیں سکتا مشکل امر یہ ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں اس پرعملدرآمدکی ر فتار سست ہے جس بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اس کے جواب میں عالمی برادری کا ردعمل اور امداد کی صورت حال اب تک آٹے میں نمک کے برابر کے مصداق ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں بلکہ عالمی سطح پر بعض شخصیات نے بھی اس امر کی جانب توجہ دلا چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کے مقابلے میں دیگر صنعتی و معاشی قوتوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہے ایسے میں اصولی طور پر عالمی برادری کو اور خاص طور پر محولہ ممالک کو اپنے اعمال کے نتائج کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث نقصانات کا ازالہ کرنے میں ان ممالک کو بالخصوص اور عالمی برادری کو بالعموم اپنا کردار ادا کرنے میں تساہل اور تامل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان نقصانات کے ازالے کے لئے پوری طرح کردار ادا کرنا چاہئے یہ امر کوئی پوشیدہ نہیںبلکہ پوری طرح واضح ہے کہ پاکستان کو جس المیے کا سامنا ہے اس کے اسباب کہیں اور ہیں پاکستان جو دنیا کی اڑھائی فیصد آبادی کا ملک ہے کاربن کے اخراج میںاس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک کی صرف سو کمپنیاں عالمی کاربن کے اخراج کی اکہتر فیصد کی ذمہ دار ہیں جس کے حوالے سے عالمی برادری کو ادراک ہونا چاہئے اور اس ضمن میں اقدامات کی بھی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں مزید صورتحال سنگین نہ ہو۔ فی الوقت سب سے بڑا مسئلہ متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی سمیت زراعت اور لائیوسٹاک سمیت دیگر شعبوں میں نقصانات کاازالہ اور ان شعبوں کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا طویل اور صبر آزما مسئلہ درپیش ہے ۔جس کے حوالے سے عالمی برادری سے روابط کو مزید مربوط بنانے اور مسئلہ سامنے رکھ کر امداد کا حصول ترجیح اول ہے اور ہونا چاہئے توقع کی جانی چاہئے کہ وزیر اعظم اپنے خطاب میں ان تمام معاملات کا جس طرح سے احاطہ کریں گے اور وہ دنیا کواپنا نقطہ نظر موثر طریقے سے سمجھانے میں اس طرح کی کامیابی حاصل کریں گے کہ عالمی برادری عملی امداد کا کام تیز کرے گی اور متاثرین کے مسائل میں کمی لانے کے اقدامات میں تیزی آئے گی۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات