جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید

پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا ہے کہ افغان پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کیلئے مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں ان کو یہاں رہنے کا حق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان شہریوں کو کراچی جیسے شہر میں کھلا چھوڑا ہوا ہے، یہاں تو ہر شہر میں افغانی بغیر دستاویزات کے پھر رہے ہیں حالانکہ ایران اور دیگر ممالک میں افغانیوں کیلئے میکنزم موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سڑکوں پر پاکستان کو گالیاں نکالی جارہی ہیںیو این سے کہا جائے کہ مردہ باد کہنے والوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں۔اس موقع پر سیکریٹری سیفران نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر اراکین کے تحفظات درست ہیں،کمیٹی جو ڈائریکشنز دے گی اس پر عملدرآمد ہوگا۔پاکستانیوں اور افغان مہاجرین کے ایک جانب جہاں مہاجر و انصار کا تعلق ہے جسے تسلیم بھی کیا جا رہا ہے لیکن دوسری جانب کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جوموقع ملنے پر نفرت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے نیز جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں افغان مہاجرین کا ملوث ہونا از خود افغان حکومت اور مہاجرین دونوں کے لئے مسائل کا باعث ہے معدودے چند عناصر کے جرائم میں ملوث ہونے کے عمل کو ملزم اور قانون کا معاملہ قرار دینے کی گنجائش ہے لیکن بعض مواقع پر جونفرت انگیز صورتحال بنا دی جاتی ہے اس پر افغان حکومت کو سوچنا چاہئے کہ جس ملک نے اس کے لاکھوں شہریوںکوچالیس سال سے اس طرح سے پناہ دی ہے کہ مہاجرین اور انصار میں کوئی فرق موجود نہیں جبکہ دیگر ممالک میں ان کا درجہ پناہ گزینوں کا ہے افغان حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے اور جو لوگ نفرت انگیزی کی کوششوں کے باعث قانون کو مطلوب ہوں ان کو قانون کے حوالے کرنے میں تعاون کا مظاہرہ کیا جائے اس طرح کے عناصر کی نشاندہی اور ان کے حرکات و افعال کی ویڈیو ثبوت کے بعد اس حوالے سے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس طرح کے عناصر ہی طرفین کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں جن کے خلاف کارروائی ہر دو ممالک کے مفاد میں ہے ۔
نازک مسئلہ
حساس معلومات رکھنے والے500سے زائدعہدیداروں اور حکام کا پاکستان میں کام کرنے کے بعد پاکستانی شہریت چھوڑ جانے کا معاملہ سنگین ہے جس کی موثر روک تھام کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے جلد سے جلد پالیسی مرتب کرکے اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے حساس معلومات رکھنے والے ملکی شہریت سے دستبردار ہوں یا ملک سے جا کر کسی اور ملک جا بسیں تو ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جس کا تقاضا ہے کہ حساس عہدوں پر غیر ملکی شہریت کے پیش نظر ان کو اس وقت تک تعینات نہ کیا جائے جب تک وہ غیر ملکی شہریت سے مکمل طور پر دستبرداری اختیار نہ کریں ساتھ ہی ساتھ اہم عہدوں پر فائز افراد کو بعداز ریٹائرمنٹ دوسرے ممالک میں رہنے پر پابندی کا بھی کوئی طریقہ کار وضع ہونا چاہئے ملک و قوم کے مفاد سے کھلواڑ کا الزام ہ ملک چھوڑنے اور باہر جانے والے پرالزام نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی ہر ایک پر شک مناسب ہوگا لیکن احتیاط کے تقاضے اور ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے جو بھی ضروری پاپندیاں لازم ہوں اس سے دریغ نہ کیا جائے۔
خطروں کے کھلاڑی
پشاور کی سڑکوں پر کم عمر چنگ چی ڈرائیوروںسے صرف نظر کا رویہ حادثات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ڈرائیورنگ کے قوانین سے بے خبرمنچلے نوجوان چنگ چی کی سواری کرتے ہوئے اکثر حادثات کا شکارہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے سڑک پر لڑائی جھگڑے بھی معمول بن گئے ہیں۔ پشاور کے دلزاک روڈ، گلبہار، نوتھیہ، کبوتر چوک ، کوہاٹ روڈ، آسیہ اور دیگر مقامات پر چنگ چی کی بھرمار نے ٹریفک نظام درہم برہم کردیا ہے مختلف مقامات پر چنگ چی کم عمر ڈرائیورز چلا رہے ہیں جن کی عمریں 12سال سے لیکر 15سال کے درمیان ہیں کم عمری میں ڈرائیورنگ کرنے والے لائسنس سے بھی محروم ہیں ۔مشکل امر یہ ہے کہ یہ ساری صورتحال ٹریفک پولیس سے پوشیدہ نہیں قانون کے تقاضے بھی غیر واضح نہیں اور نہ ہی شہریوں کے جان و مال کو درپیش خطرات کو سمجھنا کچھ مشکل ہے لیکن اس کے باوجود صوبائی دارالحکومت میں غیر قانونی سوزوکی اڈوں اور من مانے خود ساختہ روٹس پر چنگ چی سروسز قانون کے محافظوں کی چشم پوشی یا پھر ملی بھگت کاواضح اظہار ہے جس کا اعلیٰ حکام کونوٹس لینا چاہئے۔توقع کی جانی چاہئے کہ ٹریفک پولیس خطروں کے ان کھلاڑیوں کے خلاف جلد ہی مہم شروع کرے گی اور شہریوں کے جان و مال کو درپیش خطرات کاازالہ کیاجائے گا۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟