مشرقیات

آئے روز اخبارات میں جرائم کی اس قدر تشویشناک خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ انسانی رویوں سے خوف طاری ہو جاتا ہے۔ زر’ زن اور زمین کی لڑائی کے ساتھ ساتھ اب تو راہ چلتے معمولی تکرارپہ بھی لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ہرجگہ فساد سے ذاتی اور اجتماعی زندگی ایک ایسے المیہ کا شکار ہے کہ کہیں کسی گھر میں رہنے والے ایک دوسرے کو خون میں نہلا رہے ہیں تو کہیں کسی گاؤں یا شہر میں قتل و غارت ، مال و اسباب کے نقصان اور اغوا کی وارداتیں سرعام ہو رہی ہیں۔ قومی اور عالمی سطح پر سیاسی ، مذہبی،لسانی،گروہی اور نظریاتی اختلافات نے دُنیا کی بیشتر آبادی کو نہ صرف خون خرابے میں مبتلا کیا بلکہ اس کے اثرات سے آنے والی نسلیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ فساد انسانی معاشرے میں افراد یا گروہوں کے درمیان پایا جانے والا عمل ہے ۔جب افراد کے تعلقات عدل و انصاف کے خلاف حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیںتو اس کے خلاف احتجاج اور غم و غصہ کے اظہار سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی فساد انسانی تمدن کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتا ہے کیونکہ انسانی تمدن کی بنیادجس قانون پر قائم ہے ،اس کی پہلی شق انسانی جان اور اس کے خون کا احترام ہے۔ اب جہاں ایسے قانون کو تسلیم ہی نہ کیا جائے تو وہاں مہذب اور پُر امن زندگی کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ دُنیا میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیںلیکن نسل پرستی کی بنیاد پر جنوبی افریقہ،امریکہ اور یورپ میںسیاہ و سفید فام کا جھگڑا جاری ہے۔ ہندوستان اور پاکستان لسانی اور گروہی اختلاف کی بنیاد پر ہونے والے فسادات کی مثالیں ہیں جہاں ہر صوبہ اپنی زبان کو برتر سمجھتا ہے۔ علاقائی،صوبائی اور مُلکی تعصبات کے علاوہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی فساد کا سبب بنتی ہے۔ معاشی مفادات نے تو آج کل ایک ایسے فساد کو جنم دے رکھا ہے کہ جس سے اب مُلکی سطح پر نقصِ امن و عامہ کا خدشہ ہے۔ فسادات کے معاشرے پر مختلف طریقوں سے اثرات مرتب ہو تے ہیں۔یہ فسادات سماجی بد نظمی، بگاڑ،تذبذب اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔اب جنگ فساد کی ایک شکل ہے جو انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے انسانوں اور املاک کو اس طرح تباہ کر دیتی ہے کہ اس کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جاپان کے دو شہروںہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے جنگی بربریت کی بد ترین مثالیں ہیں ۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ میں کروڑوں انسانوں کی موت ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔ محاذِ جنگ پہ لڑنے والے سپاہیوں کے ساتھ ساتھ جنگ سے متاثرہ ممالک کے لوگ بھی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو تے ہیں’ ویت نام ‘ شام ‘ عراق اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی