غیرملکی کمپنیاں

تیل ذخائرتلاش کرنے والی زیادہ ترغیرملکی کمپنیاں واپس چلی گئیں

ویب ڈیسک:پٹرولیم سیکٹر میں پٹرول دریافت کرنے والی زیادہ تر بین الاقوامی کمپنیاں سیکورٹی وجوہات کی بناء پرکام چھوڑ کر ملک سے چلی گئی ہیں جبکہ 80 فیصد سے زائد ایکسپلوریشن مقامی کمپنیوں کے پاس ہے ،اس بات کا انکشاف منسٹری آف پٹرولیم اور آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے نمائندوں نے پشاورہائیکورٹ میں پٹرولیم و گیس ذخائر سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کیا،دوران سماعت چیف جسٹس قیصررشید خان نے او جی ڈی سی ایل کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے اس حوالے سے کیا کیا ہے اور ابھی تک کتنے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں؟
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں اس وقت کھدائی کا کام جاری ہے اور جہاں جہاں گیس کے ذخائر ہیں وہاں کھدائی کی جارہی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر کام اب مقامی کمپنیاںکر رہی ہیں اور صوبوں کی اپنی ایکسپلوریشن کمپنی کو اس میں خصوصی رعایت دی گئی ہے جس میں ایک ایک بلاک کو اسے بغیر بولی دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس صوبے کیلئے آمد ن کما سکے ۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سینئر پٹرولیم آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت 80 فیصد سے زائد ایکسپلوریشن مقامی کمپنیاں کررہی ہیں، زیادہ تر بیرونی کمپنیاں چلی گئی ہیں اور جس کی سب سے بڑی وجہ سکیورٹی خدشات ہیں کیونکہ ان کی سیکورٹی پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے لوگوں سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی کمپنیوں کو پروان چڑھائیں، کب تک ہم ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے رہیں گے اور بیرونی ممالک پر انحصار کرتے رہیں گے، یہاں پر بھی کافی ماہرین موجود ہیں ۔مول کے وکیل بیرسٹر روخان نفیس نے عدالت کو بتایا کہ مول کو گزشتہ پیشی پر ہدایت کی گئی تھی کہ وہ فلٹریشن پلانٹس لگائیں جو کہ 13 جون سے باقاعدہ طور پر فعال ہیں اور لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے ۔اوجی ڈی سی ایل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2500 سکوئر کلو میٹر ایک بلاک ہوتا ہے اور اب بہت سے بلاکس کی نشاندہی کی گئی ہے جس پر کام شروع ہوگا جبکہ زیادہ تر بلاکس کی نیلامی کا عمل بھی جاری ہے تاہم یہ سب کچھ منسٹری آف پٹرولیم کررہی ہے اور او جی ڈی سی ایل کا کام صرف اس حد تک ہے جہاں پر اسے ٹھیکہ دیا جائے ۔اس دوران ای پی اے کے نمائندہ نے عدالت کو بتایا کہ مول کمپنی نے زہریلی گیس کو کنٹرول کیا ہوا ہے تاہم جہاں پر کھدائیاں ہورہی ہیں یا پٹرول نکالا جارہا ہے وہاں کے پانی میں مضرصحت زرات ہیں اور اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ قدرتی طور پر ہیں یا پٹرولیم کمپنیوں کی وجہ سے ہے ،اس کیلئے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو ہدایت جاری کی جائے جس پر عدالت نے چیف انجینئر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو ہدایت کی کہ وہ ایسے علاقوں کے پانی کے نمونے لیں اور اسے ای پی اے کے ساتھ شیئر کریں تاکہ اس حوالے سے کاروائی ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  ویسٹ انڈیز کیخلاف کھلاڑی پلان کے مطابق نہ کھیل سکے، ہیڈ کوچ