کجا کارے کندعاقل کہ باز آید پشیمانی

سابق وزیراعظم عمران خان نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میرے بیان سے توہین ہوئی تو میں خود خاتون جج کے پاس جا کر معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان ایک ہفتے کے اندر بیان حلفی جمع کرا دیں، خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا آپ کا ذاتی فیصلہ ہوگا، اگر آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا اور معافی کے لئے تیار ہیں تو یہ کافی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو حلف نامہ جمع کرانے کے لئے29ستمبر تک کی مہلت دی اور کیس کی سماعت 3اکتوبر تک ملتوی کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں مافیا کے خلاف حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہوں اور مجھے جس سے جنگ نہیں لڑنی، وہ پاکستان کی عدلیہ ہے۔خیال رہے کہ20اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ20اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں۔اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لئے تیار ہوجائیں۔دریں اثناء خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان نے کہا کہ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ کوئی ریڈ لائن کراس کی ہے تو اس کی معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ غیر مشروط معافی کا مطلب توہین کا اقرار کرنا ہوتا ہے جبکہ عمران خان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی ، جو پہلے موقف اپنایا تھا وہی موقف ہے اور حلف نامہ بھی اسی پیرائے میں ہوگا۔عمران خان کے وکیل نے میڈیا میں کیا موقف اختیار کیا یہ اہم نہیں بلکہ اصل بات آئندہ سماعت پر پیش کئے جانے والا بیان حلفی ہوگی جس کا ایک باقاعدہ طریقہ کار طے ہے جس کے مطابق ہی بیان حلفی جمع کرانا ہو گا۔ ماہرین قانون اس معاملے میں غیر مشرطو بیان حلفی داخل کرنے اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا طریقہ کار بتاتے ہیںجس سے قطع نظر جج کو دھمکی اور عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کے بیان کا معاملہ ہو یا پھر تحریک انصاف کے بعض ناطقین کے عجیب وغریب بیانات اور بدلتے موقف ہوں ان سب سے باآسانی نہ صرف احترازکیا جا سکتا تھا بلکہ اس طرح کی سرگرمیاں خود ان کے لئے وقت اور وسائل کا ضیاع اور بلاوجہ کی تنقید کا باعث بھی بن رہے ہیں سیاسی طور پر بھی دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے قائد اگر اس الجھائو کا شکار نہ ہوتے تو یہ وقت بھی وہ سیاسی جوڑ توڑ کو دے کر اس کا بہتر استعمال کر سکتے تھے جس کا ا ن کو پچھتاوا نہ ہوتا یہاں تو پچھتاوا اور معافی اور اپنے بیان و موقف سے پیچھے ہٹ جانے جیسے معاملات سے واسطہ ہیں جو قیادت اور کارکنوں دونوں کے لئے کوئی خوشگوار امر نہیں اس صورتحال پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ کجا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی ۔ اب بھی یہ باب بند نہیںہوا بلکہ اگلی پیشی کے بعد ہی اس باب کی بندش یا پھر مقدمے کے آگے بڑھنے کا حتمی اندازہ ہو گا اس ساری صورتحال اور معاملات کا سیدھا اور آسان حل یہ ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ جانے سے گریز کیا جائے اور خواہ مخواہ آبیل مجھے مار والی صورتحال خود اپنے ہاتھوں پیدا نہ کی جائے ۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ عمران خان نے عدلیہ کے حوالے سے جو کلمات کہے تھے اس پر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے سیاسی اور عوامی رہنمائوںکو عوام اور سماج کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہئے سیاسی رہنمائوں سے خاص طور پر تدبر کا مظاہرہ کرنے کی توقع ہے سیاسی رہنما جو ماحول بناتے ہیں اس کا پورے ملک اور معاشرے اور خاص طور پر نوجوانوں اور طالب علموں پر اس کے اثرات ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے سیاسی جلسوں اور ٹاک شوز میں جس قسم کا لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے وہ ناقابل قبول ہے جبکہ سوشل میڈیا کا طوفان بدتمیزی تو بالکل ہی ناقابل برداشت ہے برے القاب اور قابل اعتراض جملوں و خواہ مخواہ کی دھمکیاں اور گیڈر بھبکھیاں سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتے اس طرح ایک دوسرے کو مطعون کرکے وہ خود ہی اپنا وقار کھو رہے ہیں اور ماحول و معاشرے کو بھی مکدر بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں جس کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی تنقید کی حدود و قیود اور فورمز موجود ہیں پارلیمان سے بڑھ کر موقر فورم نہیں ہو سکتا مگر اس کا بھی تحریک انصاف استعمال نہیں کرتا چیف جسٹس نے بھی تحریک انصاف کو اس فورم کے استعمال کا صائب مشورہ دیا ہے جس پر قیادت کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتی مقدمے سے قطع نظر جس پشیمانی کا اظہار تحریک انصاف کے قائد نے کیا ہے بہتر ہوگا کہ اسے ایک شعوری تبدیلی بنایا جائے صرف ایک مقدمے سے بچائو کا حربہ تک نہ رہے بلکہ آئندہ کے لئے ایک تبدیل شدہ برُباد اور حکمت عملی کا حامل موقف اور چہرہ سامنے آنا چاہئے ایسا ہونا خود تحریک انصاف کے حق میں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی