مشورہ تو اچھا ہے لیکن ۔۔۔؟

تحریک انصاف کے اجتماعی استعفوں سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کردار ادا کرے جلد بازی نہ کریں، ریاست کے معاملات میں وضع داری اور برداشت کا مظاہرہ ضروری ہے، سوچنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں، مرحلہ وار استعفوں سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم واضح ہے۔ بنچ میں شامل جسٹس عائشہ اے ملک کا کہنا تھا کہ قاسم سوری نے ایک پیرا گراف میں 123 استعفوں کی منظوری کا لکھ دیا لیکن کسی رکن کا نام نہیں لکھا۔ آج آپ کو ٹھیک لگ رہا ہوگا کل خود کو بھگتنا بھی پڑسکتاہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا مشورہ مناسب ترین ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر رہ کر احتجاجی سیاست یقینا پی ٹی آئی کے ارکان کا حق ہے البتہ جن امور کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ان پر غوروفکر سے نہ تو کسی کی انا مجروح ہوگی نہ ہی سیاسی ساکھ میں کمی آئے گی۔ گزشتہ روز ہی عمران خان کے ایک معاون خصوصی سینیٹر فیصل جاوید خان نے یہ دعویٰ کیا کہ عمران خان آئندہ چند ہفتوں میں دوبارہ وزیراعظم ہوں گے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ سیلاب سے ایک تہائی ملک اور لگ بھگ 4کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کا بیشتر حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے ان حالات میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ثانیا پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے اپنے 123 ارکان کے استعفوں پر مصر ہے۔ اس طور اسمبلی کے اندر سے تبدیلی کا راستہ یقینا نہیں کھل سکتا۔ اب جو واحد صورت عمران خان کے چند ہفتوں میں وزیراعظم بننے کی بچتی ہے وہ ماورائے آئین کسی انتظام سے ہی ممکن ہے بالفرض اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا ماورائے آئین کسی انتظام کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرلیا جائے گا؟ بظاہر نہ تو کسی غیرآئینی اقدام اور انتظام کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے نہ ہی وہ حالات کہ نظام کا بستر گول کرکے ایک جماعت جو قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی تھی اب اسے اقتدار سونپ دیا جائے۔ اسی طرح فیڈریشن کی چار میں سے ایک اکائی (صوبے)میں پی ٹی آئی برسراقتدار ہے۔ پنجاب میں اس کی حکومت اتحادی جماعت کے سہارے کھڑی ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں وفاقی حکومت کے اتحاد میں شامل جماعتوں کی حکومت ہے اس صورت میں کسی غیرآئینی اقدام و انتظامات پر فیڈریشن کی اکائیوں اور دوسری سیاسی جماعتوں کا کیا ردعمل ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہماری دانست میں قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ ہی غیردانشمندانہ تھا۔ استعفوں کے معاملے میں پارلیمانی قواعدوضوابط جن امور کی انجام دہی کے متقاضی ہیں وہ بھی انجام نہیں پائے۔ سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ روز تحریک انصاف کی اپیل کی سماعت کے دوران اس طرف توجہ دلائی۔ استعفے منظور کرنے والے اس وقت کے ڈپٹی سپیکر نے ارکان سے فرداً فرداً تصدیق کا پارلیمانی قانونی طریقہ اپنانے کی بجائے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے قومی اسمبلی کے ایوان میں اجتماعی استعفوں کے اعلان کو کافی سمجھا۔ حالانکہ کسی معاملے کو من پسند انداز میں سمجھ کر فیصلہ دینے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد نومنتخب سپیکر نے پی ٹی آئی کے ارکان کے اجتماعی استعفوں کی منظوری کو کالعدم قرار دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے انفرادی تصدیق کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جو نوٹس بھجوائے پی ٹی آئی کی قیادت نے ارکان کو ان نوٹسوں کا جواب دینے اور ذاتی طور پر تصدیق کے قانونی تقاضے کو پوراکرنے سے منع کردیا۔ اس فیصلے سے ان شبہات کو تقویت ملی کہ پارٹی ارکان استعفی نہیں دینا چاہتے تھے۔ اسی دوران بعض مستعفی ارکان کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ ان سے سادہ لیٹر پیڈ پر دستخط لئے گئے۔ گو اس دعوے کی عملی طور پر تصدیق نہیں ہوئی لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کی بدولت ابہام بہرطور پیدا ہوگیا۔
ملک کے معروضی حالات، سیاسی عمل میں در آئی کشیدگی، معاشی عدم استحکام، بیروزگاری اور مہنگائی کا بے قابو ہونا ان سب سے بڑھ کر ایک تہائی ملک کا سیلاب میں ڈوب جانا اس امر کے متقاضی ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت سابق ڈپٹی سپیکر کے غیرقانونی فیصلے کو جواز بناکر استعفوں پر اصرار نہ کرے بلکہ قومی اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے بعض سابق وزرا یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ موجودہ حکمران اتحاد کے بعض اتحادی ہم سے رابطے میں ہیں اور وہ اپریل میں کئے گئے اپنے فیصلے کے نتائج پر شرمندہ بھی۔ ایسا ہے تو پھر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا تحریک انصاف قومی اسمبلی کے ایوان میں واپس جاکر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کو گرانے کا یہی ایک قانونی و آئینی راستہ ہے۔ ہم مکرر پی ٹی آئی کی قیادت کو اس امر کی جانب متوجہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کے مشورے پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ سیاست برائے حکومت اور حکومت عوام اور ملک کی خدمت کے لئے حاصل کی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے قائدین اٹھتے بیٹھتے یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ حکمران اتحاد نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے اور یہ کہ ہمارے دور میں معاشی صورتحال مستحکم تھی۔ ہر دو دعوے درست ہیں تو آگے بڑھ کر پارلیمانی طریقے سے اس حکومت کو رخصت کرنے میں امر مانع کیا ہے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت ملکی حالات اور بالخصوص سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی رائے پر تحمل و تدبر کے ساتھ غور کرنے کی زحمت کرے گی نیز یہ کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا، حالات و واقعات کی روشنی میں ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ ملک، عوام اور نظام اہم ہوتے ہیں شخصی انا سے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ قابل عمل مشورے کو مسترد کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''