سیاست کا بھاکا بھوکن یاگھر بھوکن سے کیا ناتا

سیاست میں نستعلیق تقریر کا کسی زمانے میں بڑا چرچا تھا ، دیکھا تو نہیں مگر بزرگوں کی زبانی سنا ہے کہ جب سید عطاء اللہ شاہ بخاری جلسہ عام سے خطاب کرتے تو مجمع میں ہر فرد رات کے پہلے پہر سے پو پھوٹنے تک دم بخود بیٹھا سنتا تھا ، جب اذان فجر کا ن میں پڑتی تو احساس ہوتا کہ صبح کا تڑکا ہو گیا ہے ، بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان اپنی زبان میں بھاکا بھوگن گھولتے کہ علم وادب کا لطف دوبالا ہو جا تا ایسے استعارے اور امثال کے علاوہ اپنے تخلیق کر دہ اشعار ارشاد فرماتا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ کسی سیا سی جلسہ میں بیٹھے ہیں یو ں کہیے کہ کوئی علمی نشست ہے وہ ایو ب خان اور بھٹو مر حوم کے بے حد ناقد تھے مگر ان کے لیے کبھی سوقیانہ الفاظ استعمال نہیں کیے ، ہمیشہ تنقید کے لیے ایسے الفا ظ کا چناؤ کرتے جو گواہی دیتا کہ نواب زادہ ہی نہیں نجیب زادہ بھی ہیں ، اس سے بڑھ کر مولانا مودودی کی تحریر تو ہی علم وادب کا شہ پا رہ مگر ان کی تقریر بھی اسی ٹکر کی تھی ، الفاظ کے چناؤ میں وہ لطافت تھی کہ سننے والا بھی مستفید ہو جا تا حتیٰ کہ مولا نا مو دودی کی تقریر کی رپورٹنگ کرنے والے جب قلم بندکرتے تو ان کو زیر،زبر و پیش کو بھی سنوارنے کی ضرورت نہ پڑتی بغیر سنوارے کانٹ چھانٹ تقریر کسی بڑے ادبی رسالے کی زینت بن جایا کرتی ، فرماتے ”میں چھُپا ہو ا نہیں ہو ں چھَپا ہو ا ہوں(اشارہ اپنی تحریروں اورکتب کی طرف )دیکھ لو پڑھ لو کہ میں کیا ہو ںکیا نہیںہوں مولا نا نے کبھی مخالفین کے لیے نیچ الفاظ استعمال نہیں کیے ،سیا ست میں شائستگی ،شرافت ، دیانت ، اما نت کی تما م تر راویت اب قصہ پارینہ ہو چکی ہیں سیا ست دانو ں کی زبان دانی اب سوقیانہ زبان دارزی سے اٹی پڑی ہے جبکہ نیلسن مینڈیلا کی سیاسی جدوجہد کی عمر کو چھوڑیں انھوں نے تو اپنی عمر کے سنہری ستائیس سا ل دس مہینے زندان کی صعوبتوں میں بسر کرکے قوم کو گوروں کی غلا می سے آزادی دلانے پر قربان کردئیے کبھی اس عظیم قربانی کوزبان پر نہیںلائے ، جب نیلسن مینڈیلا رہائی پاکر جیل کے دروازے سے باہرآئے تو ان کو لینے آنے والی گاڑی میںسوار ہو کر منزل کی جا نب روانہ ہوئے تاہم کچھ فاصلے کے بعد انھوںنے گاڑی پھر جیل کی طرف مڑوائی اورجیل کے اندر جاکر ہر وارڈن سے ہا تھ ملاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جیل کے سب عملے کو معاف کر دیا جس جس نے بھی ان کے ساتھ دوران قید سفاکی کی ، اسی طرح ایک مرتبہ نیلسن مینڈیلا جب جنوبی افریقہ کے صدر تھے ایک سفر کے دوران کھانا کھانے کی غرض سے ایک ریسٹورنٹ پر ٹھہر گئے ،اس دوران ان کی نظر سامنے کی میز پر براجما ن ایک گورے پر پڑی تو انھوں نے اپنے ایک ہمسفر سے کہا کہ اس گورے کو یہا ں بلا لاؤ ، گورے کو جب بلا یا گیا پہلے تو وہ انکا ری ہو ا بعدا زاںجب اسے بتایاگیا کہ نیلسن مینڈیلا اس کواپنے ساتھ کھانے کی دعوت دے رہے ہیںتو بادل نخواستہ وہ اٹھ آیا ، لیکن اس کی حالت یہ تھی کہ رنگ اڑا ہو تھا ، ہاتھو ں میںکپکپاہٹ تھی خوف کی اس حالت میں پیاس دوچند ہو جایا کرتی ہے چنانچہ کھانے دوران وہ بار بار پانی کے لیے گلا س کی طر ف ہا تھ بڑھا تا ہر مرتبہ نیلسن مینڈیلا ہا تھ بڑھا کر گلا س اس کو پیش کردیتے ، جب پانی پی لیتا تو گلا س بھی بھر دیتے ، کھانے کی مجلس ختم ہوئی تو نیلسن مینڈیلا کے ہمسفر نے تبصرہ کیا کہ یہ گورے ابھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ حکمران نہیں رہے ، جس پر نیلسن مینڈیلا نے جو اب دیا کہ ایسا نہیں جب وہ جیل میںتھے تو یہ شخص وارڈن تھا ان کو جب پیا س لگتی تو وہ اس سے پانی مانگتے تو یہ پانی کی بجائے ان پر پیشاب انڈیل دیتا تھا ، ساتھ بٹھا کر کھانا اس لیے کھلایا کہ اس کو یقین ہوجائے کہ میں نے سب کو معاف کر دیا ہے کیو ں کہ ستائیس اٹھائیس سال کی قید کا ٹ کر منزل پالی ہے اب ان کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں رہا ہے ، سیا سی اقدار یا جدوجہد کی ڈھیر ساری مثالیں ہیں پڑوس میں دیکھ لیںکہ وہا ں سیاسی لیڈروں یا وزراء کی لا قانونیت کے کوئی قصے منظر عام پر نہیںآتے اختیا رات کے غلط استعمال کا کوئی افسانہ شائع نہیں ہو تا ، اپنی سیاست کے پر وان چڑھا نے میںکوئی حکومت کا ارباب سرکاری وسائل استعمال نہیں کرتا ایک ہی مثال لے لیں گلزاری لا نندہ ، بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہر وکی کابینہ میںوزیر داخلہ تھے جب پنڈت نہرو آنجہانی ہوئے تو وہ قائمقام وزیر اعظم مقرر ہوئے اس عرصہ میں انھو ں نے وزیر اعظم کی کر سی پر قبضہ جمانے کی کوئی سعی نہیں کی بلکہ آئینی طریقے سے انتقال اقتدار کی راہ ہموارکی پھر دوسری مرتبہ جب لا ل بہا در شاستری چل بسے تو پھر دوسری با ر بھی قائمقام وزیر اعظم کا عہد ہ گلزاری لا ل نندہ نے سنبھالا ،اس دودفعہ کے وزیر اعظم نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں مہیب و مصیبت میں لیں ، ایک مرتبہ جس کوٹھیا میںماضی کا یہ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر زندگی غربت وافلا س میں زندگی بسر کر رہا تھا تو کوٹھیا کا کچھ ماہ کا کرایہ نہ ادا کر سکنے پر مالک جائید اد نے سامان اٹھا کر کو ٹھیا سے باہر پھینک ما را ، کچھ لو گوں نے صلح صفائی کر ادی وہاں ایک صحافی کو علم ہو ا تو اس کے اخبار کے ایڈیٹر نے حکومت سے اس کے لیے معمولی سا وظیفہ مقرر کرایا ، وہ بھی گلزاری لا ل نندہ لینے پر آما دہ نہ تھا ،کیا پاکستانی سیاست میں ایسی تاریخ رقم ہے ، یہا ں تو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قوم کے وسائل جھاڑیوںکی طرح پھونک دیتے ہیں قانون میں ایسی ترامیم کر دیتے ہیںکہ سرکا ری وسائل جو حقیقی طور پر بیت المال کی امانت ہے اپنے سیاسی عکس کی رنگینی بڑھا نے کے لیے استعمال کریں اور زبان سے غریب کے دن پھیر نے کا راگ الاپ کرکے قانو ن اورانصاف امیر و غریب کے لیے برابر کردیں ۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی