معاشی بحران، اسحاق ڈار کی واپسی

لندن میں مسلم لیگ ن کی قیادت کے درمیان ہونے والی مشاورت میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی پر اتفاق کر لیا گیا ہے،اسحاق ڈار پاکستان آنے کے بعد سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھائیں گے پھر وزارت خزانہ کا عہدہ سنبھالیں گے، اسحاق ڈار کی ملک واپسی پر تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں، یہ اہم ہے کیونکہ ان پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس ہے اور احتساب عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے،اب احتساب عدالت نے7اکتوبر تک اسلام آباد پولیس کو گرفتاری سے روک دیا ہے۔ لیگی ذرائع نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارٹی سربراہ میاں نواز شریف مفتاح اسماعیل کی معاشی پالیسیوں سے ناخوش تھے،اس لئے انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،نواز شریف نے معاشی سمت تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے،نواز شریف کو اس بات پر تشویش ہے کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑا ہے جس سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جب خزانے کا قلمدان سنبھالا تو سابق حکومت پر ملبہ ڈال کر عوام کو کچھ عرصہ قربانی دینے کیلئے تیار رہنے کا کہا گیا، اس ضمن میں حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کو مجبوری قرار دے کر مہنگائی میں اضافہ کر دیا،عوام نے اس خیال سے کڑوا گھونٹ برداشت کر لیا کہ چند ماہ کہ بعد ریلیف ملنے والا ہے، لیکن” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کے مصداق مہنگائی میں اضافہ ہوتا گیا اور ہر آنے والا دن عوام کیلئے پہلے سے مشکل ثابت ہونے لگا، ڈالر کی اونچی پرواز اور ضروریات کی اشیاء کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو جانا، بہت سے سوالات اٹھا رہا تھا،ان حالات میں مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خزانہ کا قلمدان دینے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے تو اُمید کی جانی چاہئے کہ اسحاق ڈار اپنے تجربے کو بروئے کار لا کر عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کریں گے۔
سرکاری تعلیمی اداروںکی ناقص کارکردگی
پشاور تعلیمی بورڈ کی طرف سے جاری کردہ نویں جماعت کے نتائج میں38 ہزار سے زائد طلبہ فیل ہوئے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ فیل ہونے والے طلبہ کی زیادہ تعداد سرکاری سکولوں سے ہے، یہ نتائج بظاہر سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہیں تاہم دوسرا پہلو یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اضافی نمبر دینے کا رحجان پیدا ہوگیا تھا جس سے طلبہ میں محنت کا جذبہ ماند پڑ گیا تھا، رہی سہی کسر کورونا میں پورے نمبر دیئے جانے کے عمل نے نکال دی، کیونکہ جب بغیر محنت کے طلبہ کو پورے نمبر مل رہے تھے تو وہ کیونکر محنت کرتے، یہ تعلیمی بورڈ میں سفارش کی بنیاد پر نااہل افراد کو بھرتی کرنے سے ہوا ہے، اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، پورے نمبروں کا حصول ممکن ہے مگر ہزار میں سے کوئی ایک طالب علم ہی اس معیار پر پورا اتر سکتا ہے مگر تعلیمی بورڈ نے تھوک کے حساب سے پورے نمبر دیئے بلکہ کورونا کے ایام میں نمبروں کا جو فارمولہ نکالا گیا اس سے اضافی نمبر بھی حاصل ہوئے، یوں تعلیمی بورڈ کی غلط روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ محنت سے جی چرانے لگے، اب جب کہ 38 ہزار طلبہ فیل ہوئے ہیں اور ان طلباء کو ایک اضافی سال لگانا پڑے گا تو طلبہ فیل ہونے کے خوف سے محنت کریں گے، پیپرز چیکنگ اور نمبرز لگانے کا عمل نہایت شفاف طریقے سے ہونا چاہیے، تعلیمی بورڈ کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا کہ چونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں نقل کرائی جاتی ہے اس لئے ان اداروں کے کم تعداد میں طلبہ فیل ہوئے ہیں، اگر اس بات میں صداقت ہے تو یقیناً یہ رحجان بھی بہت خطرناک ہے، نقل سے طلبہ اگلی کلاسوں میں تو چلے جاتے ہیں لیکن ان میں تعلیمی لحاظ سے کمی باقی رہ جاتی ہے، محنت کے بل بوتے پر اور مسابقتی عمل حاصل کی جانے والی تعلیم ہی اصل تعلیم ہے جو طلبہ کی صلاحیتوں کو بھی نکھارتی ہے، بظاہر نجی ادارے نقل جیسے ہتھکنڈوں سے اپنی ساکھ تو بنا لیتے ہیں لیکن طلبہ کا اس میں نقصان ہوتا ہے، چنانچہ نقل جیسے قبیح عمل کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور متعلقہ حکام کو بھی اس کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔
درسی کتب کو غلطیوں سے پاک کیا جائے
خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے سالانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود درسی کتب میں غلطیوں کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا جو تشویش ناک امر ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چار سال سے مختلف درسی کتب میں غلطیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے مگر ابھی تک اصلاح نہیں ہو سکی، یہاں تک کہ ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی بھی عمل میں نہیں آئی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب میں بہتری لانا ضروری ہے لیکن نصاب سازی اور نصاب میں نئی کتت کو شامل کرنے کا عمل شفاف اور محتاط ہونا چاہیے کیونکہ یہ طلبہ کے مستقبل کا معاملہ ہے، نصاب میں یکمشت تبدیلی لانے کی بجائے یہ عمل مرحلہ وار اور تمام فریقوں کی مشاورت سے ہونا چاہیے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلبہ کو نصاب کی تبدیلی سے پریشانی بھی نہیں ہوگی، نصابی کتب کی تصحیح کا عمل بھی تسلی سے ہو سکے گا اور اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا، بدقسمتی سے تحریک انصاف کے گزشتہ ور حکومت میں نصاب کی تبدیلی انتہائی عجلت میں کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نصاب پر مخلتف حلقوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے، طلبہ کا تعلیمی حرج ہوا اور کتب میں اغلاط باقی رہ گئیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ حکام اس معاملے کو سنجیدہ لیں اور نصابی کتب میں غلطیوں کا تدارک کیا جائے کیونکہ یہ طلبہ کے کیریئر کا مسئلہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ نصابی کتب میں غلطیوںکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''